مجھ پر نگاہ گردش دوراں نہیں رہی
مجھ پر نگاہ گردش دوراں نہیں رہی شاید کسی کی زلف پریشاں نہیں رہی وحشت تک آ گیا ہے محبت کا سلسلہ اب مجھ کو فکر جیب و گریباں نہیں رہی میرے جگر میں خون کے قطرے نہیں رہے ان کی نظر میں برش پنہاں نہیں رہی ذوق طلب سے تیری عنایات بڑھ گئیں میری نظر میں وسعت داماں نہیں رہی دل یوں بجھا ...