ملے وہ درس مجھ کو زندگی سے
ملے وہ درس مجھ کو زندگی سے
کہ اب ڈرنے لگا دل دوستی سے
خرد ہے آخری منزل جنوں کی
پریشاں کیوں ہو میری آگہی سے
تم آئے بھی تو غم کو ساتھ لائے
مرے آنسو نکل آئے خوشی سے
خود اپنا نام لے کر کوستا ہوں
خودی غافل نہیں ہے بے خودی سے
یہ مانا موت بھی آساں نہیں ہے
مگر مشکل نہیں ہے زندگی سے
زمانہ درس حاصل کر رہا ہے
تمہاری اور ہماری زندگی سے
اچٹتی سی نظر اقبالؔ ان کی
کوئی ملتا ہو جیسے اجنبی سے