انجلا ہمیش کی نظم

    کرب آگہی

    پھر وہی انداز وہی آواز جیسے ابھی کوئی کہے گا تم میری روشنی ہو وہی آواز جس نے محبت سے نفرت کرنا سکھایا جس نے باور کرایا کہ جسم کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں آدمی سے آدمی کا رشتہ کبھی بھی بے معانی ہو سکتا ہے تب کسی بیتے ہوئے بکھرے لمحے میں دی گئی آواز ڈوب جاتی ہے مگر اب کی بار آواز سے آواز ...

    مزید پڑھیے

    حرف مقدر

    جمہوریت جمہوریت جمہوریت ایک وحشت ناک حقیقت جہاں آزادی ہو خون چوسنے کی جہاں بڑی بے باکی سے ایک جھوٹ دوسرے جھوٹ سے مقابلہ کر سکے جہاں بدی بدی کے مقابل ہو جہاں یزید کے سامنے کوئی حسین نہ ہو جہاں یزید کے سامنے کوئی حسین نہ ہو جہاں کلیجہ چبانے کی پوری آزادی ہو جہاں عذاب الٰہی کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    ان دیکھی زمیں پر

    سنو غور سے سنو ایک سوگوار سی دستک تمہارے در پہ کب سے ہو رہی ہے جانتے ہو یہ سوئیوں کی ٹک ٹک تمہیں دھیرے دھیرے بے بس کر رہی ہے گزرنے والا کوئی پل بھی تمہارا نہیں محسوس کرو ان ہاتھوں کی جنبش کو جو تمہاری گرفت سے آزاد ہو رہے ہیں کیسے روک سکو گے اس گھڑی کو جو ماضی کو کچل کر تمہارے مستقبل ...

    مزید پڑھیے

    تضاد

    دیوار پہ رینگتا ہوا کیڑا نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے وہ دیوار کے آخری سرے تک پہنچ سکا یا بیچ میں ہی گر گیا دیوار ہی تو اس کے وجود کا سہارا ہے وہ بس رینگنے کی آزادی چاہتا ہے اگر وہ دیوار کے آخری سرے تک پہنچ گیا تو اسے زندہ رہنے کا سکھ ملے گا مگر اس کا زندہ رہنا خطرہ ہے کہ اس رینگتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    سچ

    سچ کہاں ہے تاریخ کے اوراق میں تاریخ سے بڑا دھوکہ تو کچھ نہیں تاریخ تو اپنے اپنے دلالوں کے ما تحت رہی کوئی جھوٹ کس طرح سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کا جواب دینے کے لئے سیتا باقی نہ رہی ہر اس موڑ پہ بات ادھوری رہ گئی جو اگر مکمل ہو جاتی تو اہل فساد کا کاروبار کیسے چلتا تو کیا کسی چیز ...

    مزید پڑھیے

    بے نشان

    ہمیں قیامت کی نشانیوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ مرد ناپید ہو جائیں گے جنہیں خدا نے ایک درجے اوپر رکھا ذرا ان ماؤں کے دودھ کو جانچو اس کو پی کے پروان چڑھنے والا بچہ بے کردار ہو جاتا ہے کسی ہجڑے یا زنخے پہ لعن طعن مت کرو وہ اپنے سوا کسی کا مذاق نہیں اڑاتا اور اب آنے والی صدیوں ...

    مزید پڑھیے

    جلا

    زینب میں تیری باندی تو ایسی با حوصلہ اس شان سے جلتی زمین پر چلی کہ سچ کو ضرورت نہ رہی کسی حیل حجت کی تیرے لئے آسمانوں سے کوئی معجزہ نہیں اترا اجڑا ہوا گھر بے بضاعتی زمین و آسمان کی سختیاں اور تیری استقامت کہ اس قدر خوں ریزی کے بعد بھی یزیدی فتح کا خط نہ لے سکے کسی ایک فرد واحد سے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے نام جسے تاریکی نگل چکی

    کون پڑھ سکتا ہے باطن کو کون چھو سکتا ہے آنکھوں کی ویرانی کو کون دیواروں پہ مرتی دھوپ کو اپنے اندر اتار سکتا ہے جب حواس کوڑھ زدہ ہو جائیں تب جدائی کے زخم سے من اجنبی ہو جاتا ہے وہ میری آواز کے لمس سے بہت دور ہے وہ کون سی بنجر زمین ہے جہاں میرے کسی احساس کسی کیفیت کی رسائی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بازیافت

    ہم جن خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں ہم جن راستوں پر چلنا چاہتے ہیں وہ رستے نہ جانے کیوں اجنبی بن جاتے ہیں ہماری آنکھیں انتظار کرنا بھول چکی ہیں ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں کسی کی یاد اب ہمیں ستاتی نہیں اب نہ کوئی درد ہے نہ کوئی خلش ہم نے کاٹ پھینکے وہ اعضا ...

    مزید پڑھیے

    محبت

    ہم مصیبت کے مارے محبت نہیں کر سکتے محبت اگر محبوب کی بانہوں میں بانہیں ڈالے سمندر کے کنارے چلنے کا نام ہے تو ہمیں وہ کنارہ کبھی نہیں ملا محبت اگر محبوب کے کاندھوں پر گھڑی دو گھڑی کے سکون کا نام ہے تو ہمیں وہ کاندھے میسر نہیں ہم تو اپنی آگ میں مستقل جلتے ہیں ہمیں کیا معلوم کسی کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2