Inam Nadeem

انعام ندیمؔ

پاکستان کے اہم ترین معاصر شاعروں میں شامل

One of the most prominent contempory pakistani poets.

انعام ندیمؔ کی غزل

    دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا

    دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا تا عمر یہ شیشے کا مکاں یوں ہی رہے گا ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا ہے دھند میں ڈوبا ہوا اس شہر کا منظر کیا جانئے کب تک یہ سماں یوں ہی رہے گا کچھ دیر رہے گی ابھی بازار کی رونق کچھ دیر یہ ہونے کا گماں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہی روانی میں بہتا نظر آتا ہے

    اپنی ہی روانی میں بہتا نظر آتا ہے یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے دیتا ہے کوئی اپنے دامن کی ہوا اس کو شعلہ سا مرے دل میں جلتا نظر آتا ہے اس ہاتھ کا تحفہ تھا اک داغ مرے دل پر وہ داغ بھی اب لیکن جاتا نظر آتا ہے آنکھوں کے مقابل ہے کیسا یہ عجب منظر صحرا تو نہیں لیکن صحرا نظر آتا ...

    مزید پڑھیے

    جس روز ترے ہجر سے فرصت میں رہوں گا

    جس روز ترے ہجر سے فرصت میں رہوں گا معلوم نہیں کون سی وحشت میں رہوں گا کچھ دیر رہوں گا کسی تارے کے جلو میں کچھ دیر کسی خواب کی خلوت میں رہوں گا خاموش کھڑا ہوں میں در خواب سے باہر کیا جانیے کب تک اسی حالت میں رہوں گا کچھ روز ابھی اور ہے یہ آئنہ خانہ کچھ روز ابھی اور میں حیرت میں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں معلوم یہ کیا کر چکے ہیں

    نہیں معلوم یہ کیا کر چکے ہیں ہم اپنے دل سے دھوکا کر چکے ہیں ذرا کار جہاں بھی کر کے دیکھیں بہت کار تمنا کر چکے ہیں کوئی پتھر ہی آئے اب کہیں سے ہم اپنے دل کو شیشہ کر چکے ہیں زمانہ ہے برے ہمسائے جیسا سو ہمسائے سے جھگڑا کر چکے ہیں سمیٹے گا کوئی کیسے جو پتے بکھرنے کا تہیہ کر چکے ...

    مزید پڑھیے

    راستے جس طرف بلاتے ہیں

    راستے جس طرف بلاتے ہیں ہم اسی سمت چلتے جاتے ہیں روز جاتے ہیں اپنے خوابوں تک روز چپ چاپ لوٹ آتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں جو خس و خاشاک یہ کوئی داستاں سناتے ہیں یہ محبت بھی ایک نیکی ہے اس کو دریا میں ڈال آتے ہیں یاد کے اس کھنڈر میں اکثر ہم اپنے دل کا سراغ پاتے ہیں شام سے جل رہے ہیں بے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں بچھائی یہاں آسماں بلند کیا

    زمیں بچھائی یہاں آسماں بلند کیا پھر اس نے ایک ستارے کو ارجمند کیا عجیب راستہ کھلتا چلا گیا مجھ پر جب ایک رات در خواب میں نے بند کیا پکارتے تھے مجھے آسماں مگر میں نے قیام کرنے کو یہ خاک داں پسند کیا عجیب بات تھی اب کے مبارزت میں ندیمؔ کہ مجھ کو میری ہزیمت نے فتح مند کیا

    مزید پڑھیے

    پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں

    پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں بہتا تھا میرے خواب کا دریا یہیں کہیں جانے کہاں ہے آج مگر پچھلی دھوپ میں دیکھا تھا ایک ابر کا ٹکڑا یہیں کہیں دیکھو یہیں پہ ہوں گی تمنا کی کرچیاں ٹوٹا تھا اعتبار کا شیشہ یہیں کہیں کنکر اٹھا کے دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن رکھا تھا میں نے دل کا نگینہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی باغ سا سجا ہوا مرے سامنے

    کوئی باغ سا سجا ہوا مرے سامنے کہ بدن ہے کوئی کھلا ہوا مرے سامنے وہی آنکھ ہے کہ ستارہ ہے مرے روبرو یہ چراغ کیا ہے جلا ہوا مرے سامنے مری خواب گاہ میں رات کیسا خمار تھا کوئی جام سا تھا دھرا ہوا مرے سامنے میں کھڑا ہوا تھا عجیب وہم و گمان میں در خواب شب تھا کھلا ہوا مرے سامنے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ منظر بے در و دیوار ہوتا

    یہ منظر بے در و دیوار ہوتا اگر میں خواب سے بیدار ہوتا بہت آساں تھا اس کو یاد رکھنا پر اگلا مرحلہ دشوار ہوتا سفر کچھ اور بھی مشکل سے کٹتا اگر یہ راستہ ہموار ہوتا اگر یہ دائرہ تکمیل پاتا جہان ثابت و سیار ہوتا جو تیری آرزو مجھ کو نہ ہوتی تو کوئی دوسرا آزار ہوتا

    مزید پڑھیے

    خود اپنے اجالے سے اوجھل رہا ہے دیا جل رہا ہے

    خود اپنے اجالے سے اوجھل رہا ہے دیا جل رہا ہے نہیں جانتے کس طرح جل رہا ہے دیا جل رہا ہے سمندر کی موجوں کو چھو کر ہوائیں پلٹنے لگی ہیں ستارہ فلک پر کہیں چل رہا ہے دیا جل رہا ہے کوئی فیصلہ تو کرو راستے سے گزرتی ہواؤ یہ قصہ بڑی دیر سے ٹل رہا ہے دیا جل رہا ہے کہیں دور تک کوئی جگنو نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2