Imran Shamshad

عمران شمشاد

عمران شمشاد کی غزل

    یوں بھٹکنے میں کی ہے بسر زندگی

    یوں بھٹکنے میں کی ہے بسر زندگی جیسے آ جائے گی راہ پر زندگی یہ کرو وہ نہیں وہ کرو یہ نہیں ٹوکتی ہی رہی عمر بھر زندگی اس طرف چل دیے تو کسی نے کہا اس طرف آئیے ہے ادھر زندگی اس طرف جائیے اس طرف جائیے کس طرف جائیے ہے کدھر زندگی تولتی بھی رہی ڈولتی بھی رہی کچھ ادھر زندگی کچھ ادھر ...

    مزید پڑھیے

    جل کر جس نے جل کو دیکھا

    جل کر جس نے جل کو دیکھا تم نے اس پاگل کو دیکھا خواب دیے اور آئینے میں آنے والے کل کو دیکھا وقت کے سب سے اونچے پل سے آتے جاتے پل کو دیکھا خواہش کے چنگل سے آگے حیرت کے جنگل کو دیکھا صحرا میں اک کرسی دیکھی کرسی پر سچل کو دیکھا دیکھیں تشنہ لب کی آنکھیں آنکھوں کے جل تھل کو ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہر کے دیکھ تو اس خاک سے کیا کیا نکل آیا

    ٹھہر کے دیکھ تو اس خاک سے کیا کیا نکل آیا مری پر گرد پیشانی سے بھی سجدہ نکل آیا کہیں پیپل اگے ہیں تیسری منزل کے چھجے پر کہیں کھڑکی کی چوکھٹ سے کوئی قبضہ نکل آیا ہمارا راستہ تو علم کا تھا جستجو کا تھا نہ جانے کون سے رستے سے یہ رستہ نکل آیا تو کیا ہر علم مشکل کی بدولت سیکھتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی پیروں سے آنکھوں تک چبھن محسوس ہوتی ہے

    کبھی پیروں سے آنکھوں تک چبھن محسوس ہوتی ہے کبھی یہ زندگی مجھ کو چمن محسوس ہوتی ہے مسافت نے مسافر سے کہا تو تھک رہا ہے کیوں تھکن محسوس کرنے سے تھکن محسوس ہوتی ہے تو پھر میں سوچتا ہوں روح کی پاکیزگی کیا ہے محبت جب مجھے اپنا بدن محسوس ہوتی ہے بلند و بالا لگتی ہے کبھی یہ آسماں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2