Imran Shamshad

عمران شمشاد

عمران شمشاد کی نظم

    کالا

    کالا حد سے بھی کالا تھا اتنا کالا جتنی تیری سوچ اتنا کالا جتنی تیرے دل کی کالک کون تھا کالا کالا کالا سوچتا جاتا کھرچ کھرچ کر نوچتا جاتا اپنا ہونا کھوجتا جاتا جملوں کی بدبو کے اندر اپنی خوشبو سونگھتا جاتا اپنی سگریٹ پھونکتا جاتا کالے کی سگریٹ بھی کالی کالے کا گردہ بھی کالا کالے ...

    مزید پڑھیے

    خبر کا رخ

    ٹی وی پر اک خبر چلی ہے شہر کی جانب بڑھنے والے سیلابی ریلے کا رخ گاؤں کی جانب موڑ دیا ہے گاؤں میں بیٹھے اک دیہاتی نے غصے میں اپنا ٹی وی توڑ دیا ہے

    مزید پڑھیے

    سڑک

    سڑک مسافت کی عجلتوں میں گھرے ہوئے سب مسافروں کو بہ‌ غور فرصت سے دیکھتی ہے کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں کبیر حد سے ابھر رہا ہے صغیر قد سے گزر رہا ہے کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا ہے کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا ...

    مزید پڑھیے

    ایک تتلی اڑی

    ایک تتلی اڑی گلستاں کو چلی ڈالی ڈالی بڑھی غنچہ غنچہ پھری اس کی اک پھول سے دوستی ہو گئی خوش نوا سب پرندے چہکنے لگے خار تک خوش دلی سے مہکنے لگے پھول نے جڑ کی محنت کا رس خود نچھاور کیا اور تتلی محبت کے رنگین پل چھوڑ کر اڑ گئی پھر نہ تتلی ملی اور نہ گل کھل سکا بوٹے بوٹوں تلے آ گئے اور ...

    مزید پڑھیے

    سُودی بیگم

    کون ہے سودی بیگم اس کو جانتے ہو تم وہ جس کے قبضے میں تھے رضیہ کے کنگن جس کے ہاتھوں میں تھی رضیہ کی ہر آتی جاتی سانس کی ڈور جس کے پاس پڑے تھے اس کے گروی خواب رضیہ کی شادی سر پر تھی اور دل میں تھا سودی بیگم کی سودی آنکھوں کا خوف سودی بیگم کے چنگل سے سود و زیاں کے اس جنگل سے رضیہ بھاگنا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا بھر کے دکھ کا حاصل

    خالی کمرہ گہری سانسیں کمرے کے اک کونے میں اک ٹوٹی پھوٹی میز میز پہ دنیا بھر کا گورکھ دھندا کاٹھ کباڑ کاٹھ کباڑ سے تھوڑا آگے ترچھا پیپر ویٹ پیپر ویٹ کے نیچے کاغذ کاغذ پر لفظوں کا ڈھیر ڈھیر کے پاس اک ٹوٹی عینک عینک کے شیشوں کے پیچھے موٹے موٹے حرف عینک کے شیشوں سے آگے نیلے پیلے کالے ...

    مزید پڑھیے