عمران راہب کی غزل

    گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو

    گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو اک بار مجھے پھر سے ذرا چاک پہ رکھو اک برف کی سل قلب پریشاں پہ اتارو اک دشت مرے دیدۂ نمناک پہ رکھو تم رمز شہادت کے معانی نہیں سمجھے سر نوک کی سدرہ پہ بدن خاک پہ رکھو لازم ہے کہ چابک سے تراشو مرا پیکر واجب ہے کہ تم ترش روی ناک پہ رکھو پھر پشت پہ ہر ...

    مزید پڑھیے

    میں ہجر زاد ہوں مجھے صحرا دکھائی دے

    میں ہجر زاد ہوں مجھے صحرا دکھائی دے تو آنکھ بھر کے دیکھے تو دریا دکھائی دے ایسا طلسم ساز ہے گر پھونک مار دے سارا جہان آنکھ کو اندھا دکھائی دے یہ اہتمام قتل کا کچھ اس طرح سے ہو مقتل کا راستہ مجھے سستا دکھائی دے اس کو ہی دین مان لو یوں بحث مت کرو جو بھی نبی کی پشت پہ بیٹھا دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    لان میں بیٹھا دروازے پر دستک سن کر چونک پڑا

    لان میں بیٹھا دروازے پر دستک سن کر چونک پڑا کون ہے جس نے وحشت توڑی مجھ سا پتھر چونک پڑا تیری یاد میں روتے روتے شب بھر جاگا لیکن پھر ہچکی سن کے کچی نیند میں سویا بستر چونک پڑا چلتے چلتے اس کا آنچل چھو کے ایسا گزرا ہے میرے جسم پہ کالے رنگ کی شرٹ کا کالر چونک پڑا میں نے خود پہ منتر ...

    مزید پڑھیے

    شال چھوٹی ہی سہی رکھ لو بڑی ٹھیک نہیں

    شال چھوٹی ہی سہی رکھ لو بڑی ٹھیک نہیں تم پہ نکھرے گی بہت گھر میں پڑی ٹھیک نہیں میں نے پوچھا ہے کہ چائے کے لیے وقت کوئی ہنس کے بولی ہے اشارے سے گھڑی ٹھیک نہیں اک تماشا ہے وہ میری ہے نہیں میری ہے یہ جو کھڑکی میں ہے دوشیزہ کھڑی ٹھیک نہیں اس محلے میں اگر سانپ ڈسے بہتر ہے لوگ کہتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    پھر یوں ہوا کہ آگ سے چہرہ جلا دیا

    پھر یوں ہوا کہ آگ سے چہرہ جلا دیا کس نے عظیم شہر کا نقشہ جلا دیا کل پنچھیوں نے قید میں اک فیصلے کے بعد بدلے کی سرد آگ سے پنجرہ جلا دیا تاوان جو نہیں ملا شہ رگ کو کاٹ کر بچے کی لاش پھینک دی بستہ جلا دیا آندھی کی پھر چراغ سے تکرار ہو گئی جگنو نے کیوں ہوا کا دوپٹہ جلا دیا جب نینوا ...

    مزید پڑھیے

    اس کی ہستی قضا کی قید میں ہے

    اس کی ہستی قضا کی قید میں ہے جو پرندہ ہوا کی قید میں ہے اس سے بہتر ہے یار مر جاؤں میرا جینا خدا کی قید میں ہے شب سے خائف ہے نیند کی تتلی خواب دست حنا کی قید میں ہے دل مری آنکھ میں دھڑکتا ہے آنکھ تیری ادا کی قید میں ہے سب قبیلے ہیں خون کے پیاسے ساری بستی انا کی قید میں ہے چھوڑ کر ...

    مزید پڑھیے

    میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں

    میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں میں حادثہ ہوں اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں میں نیم مردہ اسیر انساں کا قہقہہ ہوں میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں میں ایسا سر ہوں جو دشت غربت میں کٹ گیا ...

    مزید پڑھیے

    پیار کرتی ہے مگر پھر بھی مکر سکتی ہے

    پیار کرتی ہے مگر پھر بھی مکر سکتی ہے کیا بھروسہ ہے کسی اور پہ مر سکتی ہے کیا سمجھتی ہو کہ باندھا ہے مجھے بندھن میں یہ انگوٹھی ہے مری جان اتر سکتی ہے چھوٹ سکتی ہے ترے گاؤں کی مٹی مجھ سے یہ قیامت بھی کسی روز گزر سکتی ہے چاند نے جھیل کے بستر پہ جو کروٹ بدلی چاندنی ٹوٹ کے پانی میں ...

    مزید پڑھیے

    اگلے پانچ دنوں تک جینا چاہتا ہوں

    اگلے پانچ دنوں تک جینا چاہتا ہوں رو لوں گا پر پہلے ہنسنا چاہتا ہوں میری آنکھوں کے اب پاؤں کانپتے ہیں اس کو میں جی بھر کے تکنا چاہتا ہوں میں صحرا ہوں کچھ بدلاؤ لازمی ہے اب میں دریا بن کر بہنا چاہتا ہوں دنیا والو آخر کار ترابی ہوں میں ہاتھوں پر سورج دھرنا چاہتا ہوں اس کے ہر ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے نکل کے شہر کے رستے کو گھورنا

    گھر سے نکل کے شہر کے رستے کو گھورنا پھر غم زدہ سی نظم کے مصرعے کو گھورنا دو مشغلے عزیز ہیں اس ہجر زاد کو بستر پہ لیٹنا کبھی پنکھے کو گھورنا ہرگز نہیں ہوں میں نہیں ہوں کوئی اور ہے پاگل سا عکس دیکھ کے شیشے کو گھورنا دیوانگی کے خوف سے پھر چیخ چیخ کر کمرے میں جھانکتے ہوئے بچے کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2