لان میں بیٹھا دروازے پر دستک سن کر چونک پڑا
لان میں بیٹھا دروازے پر دستک سن کر چونک پڑا
کون ہے جس نے وحشت توڑی مجھ سا پتھر چونک پڑا
تیری یاد میں روتے روتے شب بھر جاگا لیکن پھر
ہچکی سن کے کچی نیند میں سویا بستر چونک پڑا
چلتے چلتے اس کا آنچل چھو کے ایسا گزرا ہے
میرے جسم پہ کالے رنگ کی شرٹ کا کالر چونک پڑا
میں نے خود پہ منتر پڑھ کے پھونکا تاکہ عشق نہ ہو
لیکن اس کی نیلی آنکھیں دیکھ کے منتر چونک پڑا
دیکھ کے جگنو کے شانے پر پرچم یار بغاوت کا
دن کی گھات میں بیٹھا شب کا وحشی لشکر چونک پڑا
انسانوں کے کرتب دیکھ کے راہبؔ پاس کے جنگل میں
نیم کے پیڑ کی شاخ پہ بیٹھا نٹکھٹ بندر چونک پڑا