Imam Bakhsh Nasikh

امام بخش ناسخ

لکھنو کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر,مرزا غالب کے ہم عصر

One of the most prominent and trend-setter classical poets from Lucknow. Contemporary of Mirza Ghalib.

امام بخش ناسخ کی غزل

    مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا

    مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں دل پر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلف پیچاں کا کسی خورشید رو کو جذب دل نے آج کھینچا ہے کہ نور صبح صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابر باراں میں تصور ...

    مزید پڑھیے

    ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا

    ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا مشغلہ آٹھ پہر ہے یہی تنہائی کا عشق میں رشک ہمیشہ سے چلا آتا ہے دیکھو قابیل نے کیا حال کیا بھائی کا جام سائل کی طرح ہیں مری آنکھیں در در جب سے عاشق کسی کافر شیدائی کا عشق کامل جو ہوا ننگ کہاں عار کہاں دھیان بدمست کو رہتا نہیں رسوائی کا ہجر میں ...

    مزید پڑھیے

    صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں

    صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں یہ زندان دغا ہے اور میں ہوں یہی کہتا ہے جلوہ میرے بت کا کہ اک ذات خدا ہے اور میں ہوں ادھر آنے میں ہے کس سے تجھے شرم فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں کرے جو ہر قدم پر ایک نالہ زمانے میں درا ہے اور میں ہوں تری دیوار سے آتی ہے آواز کہ اک بال ہما ہے اور میں ...

    مزید پڑھیے

    چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو

    چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو صدمہ شیشہ کو جو پہنچے تو صدا پیدا ہو کشتۂ تیغ جدائی ہوں یقیں ہے مجھ کو عضو سے عضو قیامت میں جدا پیدا ہو ہم ہیں بیمار محبت یہ دعا مانگتے ہیں مثل اکسیر نہ دنیا میں دوا پیدا ہو کہہ رہا ہے جرس قلب بآواز بلند گم ہو رہبر تو ابھی راہ خدا پیدا ہو کس کو ...

    مزید پڑھیے

    رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں

    رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں جس سر زمیں کے ہم ہیں وہاں آسماں نہیں دو روز ایک وضع پہ رنگ جہاں نہیں وہ کون سا چمن ہے کہ جس کو خزاں نہیں عبرت کی جا ہے لاکھوں ہی طفل و جواں نہیں پیری میں بھی خیال اجل کا یہاں نہیں دشمن اگر وہ دوست ہوا ہے تو کیا عجب یاں اعتماد دوستیٔ جسم و جاں ...

    مزید پڑھیے

    دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں

    دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں بھا گئی کون سی وہ بات بتوں کی ورنہ نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہاں رکھتے ہیں مثل پروانہ نہیں کچھ زر و مال اپنے پاس ہم فقط تم پہ فدا کرنے کو ...

    مزید پڑھیے

    مے سے روشن رہے ایاغ اپنا

    مے سے روشن رہے ایاغ اپنا گل نہ ہو ساقیا چراغ اپنا ہجر میں تر ہو کیا دماغ اپنا خشک لب آپ ہے ایاغ اپنا نکہت زلف جب سے آئی ہے نہیں ملتا ہمیں دماغ اپنا کس کی ہم جستجو میں نکلے تھے نہیں پاتے کہیں سراغ اپنا کیا ہے مذکور مرہم کافور جب نمک سودا ہو نہ داغ اپنا ہے شب ہجر وادئ وحشت دیدۂ ...

    مزید پڑھیے

    اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ

    اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ اور ہی لایا فراق یار رنگ سرخ رو کر دے شراب آئی بہار ہے خزاں سے زرد اے خمار رنگ ہونٹ اودے سبز خط آنکھیں سیاہ چہرے کا سرخ و سفید اے یار رنگ ہم کو سارے گلشن آفاق میں بس پسند آئے یہی دو چار رنگ غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ کس ...

    مزید پڑھیے

    وہ روئے کتابی تو ہے قرآن ہمارا

    وہ روئے کتابی تو ہے قرآن ہمارا کہتے ہیں جسے عشق ہے ایمان ہمارا ہاتھوں کی شکایت ہے ہمیں دشت جنوں میں پاؤں میں الجھتا ہے گریبان ہمارا ہر صبح دکھاتا ہے ہمیں جلوہ پری کا بالائے ہوا دار سلیمان ہمارا ہیں مردم غم دیدہ کے دانتوں کی طرح بند مثل دہن ننگ ہے زندان ہمارا ہم خانہ خرابوں ...

    مزید پڑھیے

    ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ

    ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ ہیں داغ مرے سینے میں انجم سے زیادہ سو رمز کی کرتا ہے اشارے میں وہ باتیں ہے لطف خموشی میں تکلم سے زیادہ جز صبر دلا چارہ نہیں عشق بتاں میں کرتے ہیں یہ ظلم اور تظلم سے زیادہ مے خانے میں سو مرتبہ میں مر کے جیا ہوں ہے قلقل مینا مجھے قم قم سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5