Imam Bakhsh Nasikh

امام بخش ناسخ

لکھنو کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر,مرزا غالب کے ہم عصر

One of the most prominent and trend-setter classical poets from Lucknow. Contemporary of Mirza Ghalib.

امام بخش ناسخ کی غزل

    مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو

    مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو نہیں ہے نشے کی کچھ قدر اگر خمار نہ ہو نہ روئے تا کوئی عاشق یہ حکم ہے اس کا کہ شمع بھی مری محفل میں اشک بار نہ ہو جو ہچکی آئی تو خوش میں ہوا کہ موت آئی کسی کو یار کا اتنا بھی انتظار نہ ہو ذقن ہے سیب تو عناب ہے لب شیریں نہیں ہے سرو وہ خوش قد جو میوہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی

    مجھ کو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی کاش عیسیٰ کے عوض موت ہی آئی ہوتی عاشقی میں جو مزہ ہے تو یہی فرقت ہے لطف کیا تھا جو اگر اس سے جدائی ہوتی گر نہ ہو شمع تو معدوم ہیں پروانے بھی تو نہ ہوتا تو صنم کب یہ خدائی ہوتی غیر سے کرتے ہو ابرو کے اشارے ہر دم کبھی تلوار تو مجھ پر بھی لگائی ...

    مزید پڑھیے

    گو یہ غم ہے کہ وہ حبیب نہیں

    گو یہ غم ہے کہ وہ حبیب نہیں پر خوشی ہے کوئی رقیب نہیں کیوں نہ ہوں طفل اشک آوارہ کہ معلم نہیں ادیب نہیں کل تصور میں آئی جو شب گور شب فرقت سے وہ مہیب نہیں ہیں سواری کے ساتھ فریادی کوئی اور آپ کا نقیب نہیں مدتوں سے ہوں جانتا ہوں وطن دشت غربت میں میں غریب نہیں تجھ سے اے دل خدا تو ...

    مزید پڑھیے

    ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا

    ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا روئے آتش ناک ہر شعلہ ہے میری آہ کا وصل کیا ہم خاکساروں کو ہو اس دل خواہ کا خاک میں آلودہ ہونا کب ہے ممکن ماہ کا نور افشاں جب سے ہے دل میں خیال اس ماہ کا طور کا شعلہ دھواں ہے میری شمع آہ کا قامت موزوں نظر آئے مجھے جائے الف تھا شروع عاشقی دن ...

    مزید پڑھیے

    ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں

    ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں خیال چشم ہے کچھ ساغر شراب نہیں وہ بے نقاب ہوا ہے تو یہ تماشا ہے دو چار ہونے کی آنکھوں میں اپنی تاب نہیں یہ مجھ کو اس کے تغافل سے ہے یقین کہ ہائے جواب نامے سو اے نامے کا جواب نہیں سما رہا ہے یہاں تک پری رخوں کا جمال ہماری آنکھوں میں خالی مقام خواب ...

    مزید پڑھیے

    ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ

    ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ ہو گیا غم سے ہمارا تن لاغر کاغذ نامۂ یار کے لکھنے کو مجھے ارزاں ہے تول دے گر کوئی سونے کے برابر کاغذ یوں لفافے میں ہمارا ہے کلام شیریں جس طرح باندھتے ہیں قند کے اوپر کاغذ ناتوانی سے نہیں ہے مجھے ممکن حرکت میں ہوں حرفوں کی طرح میرا ہے بستر ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا جب سے نظر وہ شوخ ہرجائی مجھے

    آ گیا جب سے نظر وہ شوخ ہرجائی مجھے کو بہ کو در در لیے پھرتی ہے رسوائی مجھے کام عاشق کو کسی کی عیب بینی سے نہیں حسن بینی کو خدا نے دی ہے بینائی مجھے جور سہتا ہوں بتوں کے ناتوانی کے سبب دل اٹھا لوں اس قدر کب ہے توانائی مجھے جس طرح آتا ہے پیری میں جوانی کا خیال وصل کی شب یاد روز ہجر ...

    مزید پڑھیے

    کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار

    کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار تلوار کی تلوار ہے رفتار کی رفتار کج ایسی نہ تھی آگے مرے یار کی رفتار سیکھا ہے مگر چرخ ستم گار کی رفتار سر گرتے ہیں کٹ کٹ کے وہ رکھتا ہے جہاں پاؤں سیکھی ہے مگر یار نے تلوار کی رفتار گردش ہے تری نرگس بیمار کو دن رات دیکھی نہیں ایسی کسی بیمار کی ...

    مزید پڑھیے

    جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں

    جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں بیگانہ خدائی سے ہوا ہوں کیوں کر کہوں عارف خدا ہوں آگاہ نہیں کہ آپ کیا ہوں جب ہجر میں باغ کو گیا ہوں میں آتش گل میں جل بجھا ہوں فرقت میں جو سر پٹک رہا ہوں مشغول نماز کبریا ہوں منہ زرد ہے تنکے چن رہا ہوں اے وحشت کیا میں کہربا ہوں بیگانہ ہوں کیوں کر آشنا ...

    مزید پڑھیے

    یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا

    یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا جس طرح جنگ میں ہو قبضے سے شمشیر جدا مس کے زر ہونے سے بہتر ہے کمال انساں خاکساری ہے جدا اور ہے اکسیر جدا جائے دنداں لب سوفار ہوئے اے قاتل دہن زخم سے ہوگا نہ ترا تیر جدا مرض عشق میں پیٹھ اپنی یہ بستر سے لگی نہ کبھی صفحہ سے جس شکل ہو تصویر جدا اے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5