Iftikhar Aazmi

افتخار اعظمی

  • 1935 - 1977

افتخار اعظمی کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    مقتل کے اس سکوت پہ حیرت ہے کیا کہیں

    مقتل کے اس سکوت پہ حیرت ہے کیا کہیں ایسی فضا تو ہو کہ جسے کربلا کہیں یہ کاروان عمر یہ صحرا یہ خامشی آتی ہے شرم خود پہ بس اب اور کیا کہیں لوگوں نے خامشی کی زباں سیکھ لی تو پھر کیا کر سکیں گے قاتل نطق و صدا کہیں وہ ضرب تھی کہ نطق کی زنجیر کھل گئی کیا اور مہربانیٔ دست جفا کہیں

    مزید پڑھیے

    رہ وفا سے میں اک گام بھی ہٹا تو نہیں

    رہ وفا سے میں اک گام بھی ہٹا تو نہیں لہولہان ہوا ہوں مگر ڈرا تو نہیں نظر میں شائبہ خوف کس لیے آئے یہ سیل جبر ہجوم برہنہ پا تو نہیں کھنچاؤ ہوتا ہے محسوس خوں کے قطروں میں یہ روح عصر کہیں روح کربلا تو نہیں عجب تناؤ ہے ماحول میں کہیں کس سے کہیں پہ آج کوئی حادثہ ہوا تو نہیں لبوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    شور دریائے وفا عشرت ساحل کے قریب

    شور دریائے وفا عشرت ساحل کے قریب رک گئے اپنے قدم آئے جو منزل کے قریب پھر یہ وارفتگئ شوق سمجھ میں آئے اک ذرا جا کے تو دیکھے کوئی بسمل کے قریب ان سے بچھڑے ہوئے مدت ہوئی لیکن اب بھی اک چبھن ہوتی ہے محسوس مجھے دل کے قریب عکس بازار یہاں بھی نہ ہو اس خوف سے ہم لوٹ لوٹ آئے ہیں جا کر تری ...

    مزید پڑھیے

    درد اب دل کی دوا ہو جیسے

    درد اب دل کی دوا ہو جیسے زندگی ایک سزا ہو جیسے حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب پھول خوشبو سے خفا ہو جیسے اب کچھ اس طرح سے خاموش ہیں وہ پہلے کچھ بھی نہ کہا ہو جیسے یوں غم دل کی زباں مہکی ہے نکہت زلف دوتا ہو جیسے کتنا سنسان ہے رستہ دل کا قافلہ کوئی لٹا ہو جیسے

    مزید پڑھیے

8 نظم (Nazm)

    احساس

    میری آنکھوں میں ہے بے خوابی کے نشتر چبھن ہر طرف تیرہ شبی، ہر طرف ایک گھٹن کوئی شعلہ نہ کرن سرد ہونے کو ہے دل کی دھڑکن تک رہی ہے مجھے کس حسرت سے میرے بستر کی ہر اک درد سے بھرپور شکن ڈس نہ لے دل کو یہ تنہائی کے احساس کی کالی ناگن اے مرے خواب کی دلکش پریو گنگناتی ہوئی زلفوں کی ...

    مزید پڑھیے

    ویرانۂ خیال

    دشت گرم و سرد میں یہ بے دیاروں کا ہجوم بے خبر ماحول سے چپ چاپ خود سے ہم کلام چل رہا ہے سر جھکائے اس طرح جس طرح مرگھٹ پہ روحوں کا خرام زرد چہروں پر ہے صدیوں کی تھکن سانس لیتے ہیں کچھ ایسے جیسے ہوتی ہو چبھن ہونٹ پر غمگیں تبسم اور سینے میں بکا ہر قدم پر ہڈیوں کے کڑکڑانے کی صدا ان کی ...

    مزید پڑھیے

    ناکامی

    بند آنکھیں کیے سر ساحل کل سحر دم یہ سوچتا تھا میں نیند کی گود میں زمانہ ہے، بیڑیاں توڑ دوں، نکل جاؤں وادیٔ ہو میں جا کے کھو جاؤں دفعتاً ایک موج نے بڑھ کر اپنا سر میرے پاؤں پر رکھا اور کہا دیکھ چشم دل سے دیکھ نیلگوں بحر کتنا دل کش ہے ہے زمیں کس قدر حسین و جمیل آسماں کتنا خوبصورت ...

    مزید پڑھیے

    آپ بیتی

    زمانے کے صحرا میں گلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑ تنہا پشیماں ہراساں ہراساں امید و محبت کی اک جوت آنکھوں میں اپنی جگائے ہر اک راہرو کی طرف دیکھتی ہے کہ ان میں ہی شاید کوئی میرے گلے کا بھی پاسباں ہو مگر اس بیاباں میں شاید سراب اور پرچھائیوں کے سوا کچھ نہیں ہے مجھے کون سینے سے اپنے لگائے کہ ...

    مزید پڑھیے

    دنیا

    دنیا ایک کنواری ماں ہے ہم سب ہیں ناجائز بچے جو اپنے نادیدہ پدر کی حرص و گنہ کے پچھتاوے کو اپنے اپنے کندھے پر لادے پھرتے ہیں مرنے کی دھن میں جیتے ہیں

    مزید پڑھیے

تمام