Iffat Zarrin

عفت زریں

عفت زریں کی غزل

    عجیب کرب مسلسل دل و نظر میں رہا

    عجیب کرب مسلسل دل و نظر میں رہا وہ روشنی کا مسافر اندھیرے گھر میں رہا وہ چاندنی کا مرقع نہیں تھا جگنو تھا چراغ بن کے جلا اور شجر شجر میں رہا کہاوتوں کی طرح وہ بھی شہر معنی تھا بجھا بجھا سا دیا جو کسی کھنڈر میں رہا وہ جس کو کھوج سرابوں میں تھی سمندر کی وہ اپنے دشت دل و جاں کی رہ ...

    مزید پڑھیے

    منزلیں آئیں تو رستے کھو گئے

    منزلیں آئیں تو رستے کھو گئے آبگینے تھے کہ پتھر ہو گئے بے گناہی ظلمتوں میں قید تھی داغ پھر کس کے سمندر دھو گئے عمر بھر کاٹیں گے فصلیں خون کی زخم دل میں بیج ایسا بو گئے دیکھ کر انسان کی بیچارگی شام سے پہلے پرندے سو گئے ان گنت یادیں میرے ہم راہ تھیں ہم ہی زریںؔ درمیاں میں کھو ...

    مزید پڑھیے

    گھبرا گئے ہیں وقت کی تنہائیوں سے ہم

    گھبرا گئے ہیں وقت کی تنہائیوں سے ہم اکتا چکے ہیں اپنی ہی پرچھائیوں سے ہم سایہ میرے وجود کی حد سے گزر گیا اب اجنبی ہیں آپ شناسائیوں سے ہم یہ سوچ کر ہی خود سے مخاطب رہے سدا کیا گفتگو کریں گے تماشائیوں سے ہم اب دیں گے کیا کسی کو یہ جھونکے بہار کے مانگیں گے دل کے زخم بھی پروائیوں سے ...

    مزید پڑھیے

    بے سمت راستوں پہ صدا لے گئی مجھے

    بے سمت راستوں پہ صدا لے گئی مجھے آہٹ مگر جنوں کی بچا لے گئی مجھے پتھر کے جسم موم کے چہرے دھواں دھواں کس شہر میں اڑا کے ہوا لے گئی مجھے ماتھے پہ اس کے دیکھ کے لالی سندور کی زخموں کی انجمن میں حنا لے گئی مجھے خوشبو پگھلتے لمحوں کی سانسوں میں کھو گئی خوشبو کی وادیوں میں صبا لے گئی ...

    مزید پڑھیے

    ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے

    ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے دور تک ساحل پہ دل کے آبلوں کا عکس تھا کشتیاں شعلوں کی دریا موم کے بہتے رہے کیسے پہنچے منزلوں تک وحشتوں کے قافلے ہم سرابوں سے سفر کی داستاں کہتے رہے آنے والے موسموں کو تازگی ملتی گئی اپنی فصل آرزو کو ہم ...

    مزید پڑھیے

    اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا

    اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا تو درمیاں نہ مقدر کا فیصلہ رکھتا وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا بھٹک رہے ہیں مسافر تو راستے گم ہیں اندھیری رات میں دیپک کوئی جلا رکھتا مہک مہک کے بکھرتی ہیں اس کے آنگن میں وہ اپنے گھر کا دریچہ اگر کھلا ...

    مزید پڑھیے

    جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے

    جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے اب کسی بھی مرکز سے دائرے نہیں ملتے دو قدم بچھڑنے سے قافلے نہیں ملتے منزلیں تو ملتی ہیں راستے نہیں ملتے بارہا تراشا ہے ہم نے آپ کا چہرہ آپ کو نہ جانے کیوں آئنہ نہیں ملتے وقت کی کمی کہہ کر جہل کو چھپاتے ہیں آج کل کتابوں میں حاشیے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    روح جسموں سے باہر بھٹکتی رہی

    روح جسموں سے باہر بھٹکتی رہی زخمی یادوں کو آنچل سے ڈھکتی رہی میرے ہاتھوں میں تھیں گرد کی چادریں زندگی تھی کے دامن جھٹکتی رہی چاندنی میں حسیں زہر گھلتا رہا سر کو مرمر پہ ناگن پٹکتی رہی میں گھٹاؤں سے خود کو بچاتی رہی تیغ بجلی کی سر پہ لٹکتی رہی میرے ہونٹوں کو کب مل سکی ...

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا

    خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا مختصر یہ ہے وہ میری زندگانی لے گیا پھول سے موسم کی برساتیں ہواؤں کی مہک اب کے موسم کی وہ سب شامیں سہانی لے گیا دے گیا مجھ کو سرابوں کا سکوت مستقل میرے اشکوں سے وہ دریا کی روانی لے گیا خاک اب اڑنے لگی میدان صحرا ہو گئے ریت کا طوفان دریاؤں سے ...

    مزید پڑھیے