ہمادری ورما کی غزل

    ہر کسی کی یہی اک کہانی ملی

    ہر کسی کی یہی اک کہانی ملی ڈھونڈھی خوشیاں تو غم کی نشانی ملی خوف سے شہر سہمے ملے تھے سبھی غم زدہ ان میں ان کی جوانی ملی ایک عرصہ ہوا جو نہ ہنس کے ملے ہنستی تصویر ان کی پرانی ملی ہم رہے بد دعا سے صدا بے اثر ہم کو ماں کی دعا آسمانی ملی روٹی دو تھی تو اک بھوکے سے بانٹ لی ہم کو تہذیب ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میں میرے ابھی کوئی کسک باقی ہے

    ذہن میں میرے ابھی کوئی کسک باقی ہے تجھ سے دوری کی تڑپ آج تلک باقی ہے میری آنکھوں میں کہیں تیری چمک باقی ہے میری بانہوں میں ترے تن کی لچک باقی ہے وہ بہاروں کا ہو موسم یا خزاں کی رت ہو پیار کے باغ میں ہر گل کی مہک باقی ہے میرے کمرے میں پڑی شیشے کی کرچی میں بھی دھندلی دھندلی سی کہیں ...

    مزید پڑھیے