ذہن میں میرے ابھی کوئی کسک باقی ہے
ذہن میں میرے ابھی کوئی کسک باقی ہے
تجھ سے دوری کی تڑپ آج تلک باقی ہے
میری آنکھوں میں کہیں تیری چمک باقی ہے
میری بانہوں میں ترے تن کی لچک باقی ہے
وہ بہاروں کا ہو موسم یا خزاں کی رت ہو
پیار کے باغ میں ہر گل کی مہک باقی ہے
میرے کمرے میں پڑی شیشے کی کرچی میں بھی
دھندلی دھندلی سی کہیں تیری جھلک باقی ہے
جتنی رخسار کی لالی میں ہے باقی میرے
عشق میں میرے ابھی اتنی دہک باقی ہے