Hidayatullah Khan Shamsi

ہدایت اللہ خان شمسی

ہدایت اللہ خان شمسی کی غزل

    تڑپ کے حال سنایا تو آنکھ بھر آئی

    تڑپ کے حال سنایا تو آنکھ بھر آئی جو اس نے زخم دکھایا تو آنکھ بھر آئی تھی جس چراغ سے قائم مری امید سحر ہوا نے اس کو بجھایا تو آنکھ بھر آئی زمانے بھر کا ستم سہہ کے مسکراتا رہا فریب اپنوں سے کھایا تو آنکھ بھر آئی ہمارے شہر کی گلیوں میں قہر ڈھاتے ہوئے لہو کا سیل در آیا تو آنکھ بھر ...

    مزید پڑھیے

    مرے شانے پہ رہنے دو ابھی گیسو ذرا ٹھہرو

    مرے شانے پہ رہنے دو ابھی گیسو ذرا ٹھہرو بکھر جانے دو اپنے جسم کی خوشبو ذرا ٹھہرو ادھورا چھوڑ کر جاؤ نہ یہ قصہ محبت کا چھنکتے ہیں ابھی ارمان کے گھنگھرو ذرا ٹھہرو سکون قلب کی خاطر شب فرقت میں چوموں گا بنا لینے دو تصویر‌ لب و ابرو ذرا ٹھہرو مری رگ رگ میں جاناں بھر گیا ہے نشۂ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی سے ملی سوغات یہ تنہائی کی

    زندگی سے ملی سوغات یہ تنہائی کی خواب ٹوٹے ہیں کئی آنکھ میں صحرائی کی کیوں سر بزم مری اس نے پذیرائی کی اس میں سازش تو نہیں پھر سے مرے بھائی کی برق منظر سے نگاہوں کی بصارت چھینے فکر دشمن کو مرے ہے مری بینائی کی لوگ چہرے پہ اداسی کا سبب پوچھیں گے کیا کہوں گا کہ مجھے فکر ہے رسوائی ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اک شور اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

    دل میں اک شور اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں آپ جذبات جگاتے ہیں چلے جاتے ہیں روز جلتا ہے سر شام امیدوں کا چراغ دامن لیل بجھاتے ہیں چلے جاتے ہیں وقت رخصت تو قیامت کا سماں ہوتا ہے غم کو سینے سے لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں ہم تو پھرتے ہیں محبت کا خزانہ لے کر راہ نفرت میں لٹاتے ہیں چلے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے تیری جدائی کا یہ صدمہ مار ڈالے گا

    مجھے تیری جدائی کا یہ صدمہ مار ڈالے گا زمانے بھر میں رسوائی کا چرچا مار ڈالے گا تمہارے نام سے جاناں مرا یہ دل دھڑکتا ہے اب آؤ ہاتھ رکھ دو ورنہ دھڑکا مار ڈالے گا کوئی غمگین مل جائے تو ہنسنا بھول جاتا ہوں کسی دن خیر خواہی کا یہ جذبہ مار ڈالے گا چراغوں میں لہو ڈالو ہے لڑنی جنگ ...

    مزید پڑھیے

    دن رات تمہاری یادوں سے ہم زخم سنوارا کرتے ہیں

    دن رات تمہاری یادوں سے ہم زخم سنوارا کرتے ہیں پردیس میں جیسے تیسے ہی اے دوست گزارا کرتے ہیں خوددار طبیعت ہے اپنی فاقوں پہ بسر کر لیتے ہیں احسان کسی کا دنیا میں ہرگز نہ گوارا کرتے ہیں اب لاکھ خزاؤں کا موسم بھی کچھ نہ گلوں کا کر پائے ہم خون جگر سے گلشن کا ہر رنگ نکھارا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    راس آئی نہ مجھے انجمن آرائی بھی

    راس آئی نہ مجھے انجمن آرائی بھی آفت جان بنی ہائے شناسائی بھی دشمنوں کی مرے اوقات کہاں تھی اتنی سازش قتل میں شامل تھا مرا بھائی بھی آنکھ اندھی تھی زمانے سے یہاں لوگوں کی مر گئی زیر دہن قوت گویائی بھی تجھ سے نسبت ہو کوئی سنگ ملامت کی اگر مجھ کو پیاری ہے ترے شہر میں رسوائی ...

    مزید پڑھیے

    پھر اندھیری راہ میں کوئی دیا مل جائے گا

    پھر اندھیری راہ میں کوئی دیا مل جائے گا تم اکیلے گھر سے نکلو قافلہ مل جائے گا تنگ ظرفی خشک کر ڈالے گی دریا دیکھ لے ہم کو کیا کوئی سمندر دوسرا مل جائے گا کر رہا ہوں میں تعاقب گردش ایام کا اک نہ اک دن زندگی تیرا پتا مل جائے گا آندھیو آ جاؤ کھل کر میں چراغ طور ہوں مجھ سے ٹکرانے کا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے

    اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے ہنس کے کرتے ہیں اشارات تو دکھ ہوتا ہے جن سے منسوب مرے دل کی ہر اک دھڑکن ہو وہ نہ سمجھیں مرے جذبات تو دکھ ہوتا ہے مجھ کو محروم کیا تم نے گلا کوئی نہیں ہوں جو غیروں پہ عنایات تو دکھ ہوتا ہے جسم و جاں جن کے لیے ہم نے لٹا ڈالے ہوں چھوڑ جائیں جو ...

    مزید پڑھیے

    دوستوں سے تو کنارا بھی نہیں کر سکتا

    دوستوں سے تو کنارا بھی نہیں کر سکتا ان کا ہر ظلم گوارا بھی نہیں کر سکتا میرا دشمن مرے اپنوں میں چھپا بیٹھا ہے اس کی جانب میں اشارا بھی نہیں کر سکتا شب میں نکلے گا نہیں اس پہ مسلط ہے نظام دن میں سورج کا نظارا بھی نہیں کر سکتا عیش و عشرت کا طلب گار نہیں ہوں پھر بھی تنگ دستی میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2