تڑپ کے حال سنایا تو آنکھ بھر آئی
تڑپ کے حال سنایا تو آنکھ بھر آئی جو اس نے زخم دکھایا تو آنکھ بھر آئی تھی جس چراغ سے قائم مری امید سحر ہوا نے اس کو بجھایا تو آنکھ بھر آئی زمانے بھر کا ستم سہہ کے مسکراتا رہا فریب اپنوں سے کھایا تو آنکھ بھر آئی ہمارے شہر کی گلیوں میں قہر ڈھاتے ہوئے لہو کا سیل در آیا تو آنکھ بھر ...