حسنین جعفری کی غزل

    جل رہا ہے اک دیا آنکھوں میں آدھی رات کا

    جل رہا ہے اک دیا آنکھوں میں آدھی رات کا میں امانت دار ہوں اب تک تری سوغات کا عمر گزری موسم گریہ نہیں ٹھہرا کہیں قرض اک باقی رہا مجھ پہ کسی برسات کا دور ہوتے جا رہے تھے ساحلوں پر دو چراغ بادباں نے رکھ لیا تھا عکس بھی اک بات کا دل میں اور آنکھوں میں تجھ سے چھوٹ جانے کا ملال تذکرہ ...

    مزید پڑھیے

    خزاں خزاں تھا جو موسم گلاب کیا ہوتا

    خزاں خزاں تھا جو موسم گلاب کیا ہوتا اس ایک شخص کا میں انتخاب کیا ہوتا جو حرف حرف ہوا اور تیرے آگے ہوا بھلا وہ شخص خود اپنی کتاب کیا ہوتا میں اس کے چہرے کے سب رنگ گر چرا لیتا تو اس گنہ سے زیادہ ثواب کیا ہوتا جو ہجر رنگ ہی گزرے تمہاری قربت میں عجیب لمحے تھے ان کا حساب کیا ہوتا سفر ...

    مزید پڑھیے

    بھرے سفر میں گھڑی بھر کا آشنا نہ ملا

    بھرے سفر میں گھڑی بھر کا آشنا نہ ملا شدید پیاس میں صحرا سراب سا نہ ملا گزر گئے تو ہزاروں نشاں تھے پہلے سے پلٹ کے آئے تو اپنا ہی نقش پا نہ ملا کبھی جو دھوپ تو پیکر پگھل گئے سارے کوئی بھی نقش مجھے میرے خواب سا نہ ملا رکے ہوئے سبھی آنسو چھلک گئے لیکن وہ شخص پھر بھی نگاہوں سے بولتا ...

    مزید پڑھیے