جل رہا ہے اک دیا آنکھوں میں آدھی رات کا

جل رہا ہے اک دیا آنکھوں میں آدھی رات کا
میں امانت دار ہوں اب تک تری سوغات کا


عمر گزری موسم گریہ نہیں ٹھہرا کہیں
قرض اک باقی رہا مجھ پہ کسی برسات کا


دور ہوتے جا رہے تھے ساحلوں پر دو چراغ
بادباں نے رکھ لیا تھا عکس بھی اک بات کا


دل میں اور آنکھوں میں تجھ سے چھوٹ جانے کا ملال
تذکرہ ہونٹوں پہ لیکن دوسرے حالات کا


جاگتے سوتے میں تیری یاد کے پہلو بہت
اور ہر پہلو ہے روشن ایسے امکانات کا


ہم بھی کچھ مجبوریوں کی آڑ میں ملتے رہے
پاس کچھ اس نے بھی رکھا میرے احساسات کا