جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا
جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا نظر بچا کے ترے شہر جا رہی تھی ہوا میں اس کو روتا ہوا دیکھتا رہا چپ چاپ چنبیلی گھاس پہ ٹپ ٹپ گرا رہی تھی ہوا وہ ماں ہے آب رواں کی تبھی سمندر کو اٹھا کے گود میں جھولا جھلا رہی تھی ہوا وہ خواب تھا یا سفر آنے والے موسم کا مری پڑی تھی زمیں زہر کھا رہی ...