Hasan Rizvi

حسن رضوی

  • 1946 - 2002

حسن رضوی کی غزل

    ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے

    ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے میرے مولا مرے دریا کو روانی دے دے آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے تپتے ...

    مزید پڑھیے

    چپ ہیں حضور مجھ سے کوئی بات ہو گئی

    چپ ہیں حضور مجھ سے کوئی بات ہو گئی یا پھر کسی سے آج ملاقات ہو گئی تازہ لگی تھی چوٹ کہ موسم بدل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برسات ہو گئی یوں تو دیے فریب کسی اور نے انہیں لیکن گناہ گار مری ذات ہو گئی آئے تو دل میں پیار کا چشمہ ابل پڑا اور چل دیے تو درد کی بہتات ہو گئی چنتے ہو تیرگی ...

    مزید پڑھیے

    نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے

    نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ...

    مزید پڑھیے

    پہلے سی اب بات کہاں ہے

    پہلے سی اب بات کہاں ہے وہ دن اور وہ رات کہاں ہے باتیں جیسے پت جھڑ پت جھڑ سوچوں کی بارات کہاں ہے سارے موسم ایک ہوئے ہیں وہ رت وہ برسات کہاں ہے اس کا چہرہ جیسے سرسوں آنکھوں میں وہ بات کہاں ہے اک شب میں نے ہی پوچھا تھا اے رب تیری ذات کہاں ہے قریہ قریہ جو لہرایا وہ پرچم وہ ہات کہاں ...

    مزید پڑھیے

    منہ اپنی روایات سے پھیرا نہیں کرتے

    منہ اپنی روایات سے پھیرا نہیں کرتے دشمن کو اچانک کبھی گھیرا نہیں کرتے دیوار کے پیچھے کوئی رہزن نہ چھپا ہو اس واسطے ہم گھر میں اندھیرا نہیں کرتے جس پیڑ کی چھاؤں بھی لگے دھوپ کی صورت اس پیڑ پہ پنچھی بھی بسیرا نہیں کرتے آنکھوں سے نہ پڑھ لے کوئی چہرے کی اداسی اس ڈر سے کبھی ذکر وہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی آباد کرتا ہے کبھی برباد کرتا ہے

    کبھی آباد کرتا ہے کبھی برباد کرتا ہے ستم ہر روز ہی وہ اک نیا ایجاد کرتا ہے ہم اس کی ہر ادا پر روز پر پھیلائے آتے ہیں نظر کے جال میں پابند جو صیاد کرتا ہے وہ کل بھی معتبر تھا آج بھی رہبر ہمارا ہے وہ دشمن جو وطن کی کھوکھلی بنیاد کرتا ہے اسی کے عشق میں جلنا مری تقدیر ٹھہری ہے محبت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3