حسن کمال کی غزل

    سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے

    سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے گرتی دیوار کا سایہ تھا جہاں بیٹھے تھے سب تھے مصروف اندھیروں کی خریداری میں ہم سجائے ہوئے شمعوں کی دکاں بیٹھے تھے یہی شہرت کا سبب ہوں گے یہ معلوم نہ تھا ہم چھپائے ہوئے زخموں کے نشاں بیٹھے تھے لوگ تو بجھتے چراغوں کے دھوئیں سے خوش تھے ہم ہی ...

    مزید پڑھیے

    بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے

    بساط دل کی بھلا کیا نگاہ یار میں ہے یہ شیشہ ٹوٹ بھی جائے تو کس شمار میں ہے یہ جانتے ہیں کہ وہ اس طرف نہ آئے گا عجب مزا سا مگر اس کے انتظار میں ہے بس ایک زخم خلش عمر بھر کی تنہائی وہی تو دو گے تمہارے جو اختیار میں ہے وہ کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں خاتمہ جس کا تمہاری جیت میں ہے اور ہماری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2