حسن کمال کی غزل

    شاید جو زہر شہر میں تھا کام کر گیا

    شاید جو زہر شہر میں تھا کام کر گیا خود سے ملے ہوئے بھی زمانہ گزر گیا پاگل کوئی اک اک سے یہی پوچھتا تھا کل ہم سب کا ایک گھر تھا بتاؤ کدھر گیا سورج کو جنم دے کے جھلسنے کے واسطے ٹھنڈی سی ریت چھوڑ سمندر اتر گیا سوچا تھا اپنے دل میں سنواروں گا میں تمہیں تم آئے تم کو دیکھ کے میں خود ...

    مزید پڑھیے

    عنایت کم محبت کم وفا کم

    عنایت کم محبت کم وفا کم ملا سب کچھ ہمیں لیکن ملا کم بڑی رنگین بے حد خوش نما تھی تری دنیا میں لیکن جی لگا کم تم اپنے غم کی تلخی بھی ملا دو شراب زندگی میں ہے نشہ کم چلو یوں ہی سہی ہم بے وفا ہیں مگر اے بے وفا تجھ سے ذرا کم حسنؔ دنیا میں ہم نے یوں بسر کی عداوت کم شکایت کم گلہ کم

    مزید پڑھیے

    کتنی مشکل سے بہلا تھا یہ کیا کر گئی شام

    کتنی مشکل سے بہلا تھا یہ کیا کر گئی شام ہنستے گاتے دل کو پل میں تنہا کر گئی شام دور افق پر کس کی آنکھیں رو رو ہو گئیں لال ریت کنارے کس کا آنچل گیلا کر گئی شام آتا، چاہے کوئی نہ آتا آس تو تھی دن بھر اب کیا رستہ دیکھیں رستہ دھندلا کر گئی شام میرے بچھڑے دوست سے کتنی ملتی جلتی ہے آئی ...

    مزید پڑھیے

    سب کی بگڑی کو بنانے نکلے

    سب کی بگڑی کو بنانے نکلے یار ہم تم بھی دوانے نکلے دھول ہے ریت ہے صحرا ہے یہاں ہم کہاں پیاس بجھانے نکلے اتنی رونق ہے کہ جی ڈوبتا ہے شہر میں خاک اڑانے نکلے ان اندھیروں میں کرن جب ڈھونڈی سب کے ہنسنے کے بہانے نکلے کوئی تو چیز نئی مل جاتی درد بھی صدیوں پرانے نکلے چاند کو رات میں ...

    مزید پڑھیے

    کل خواب میں دیکھا سکھی میں نے پیا کا گاؤں رے

    کل خواب میں دیکھا سکھی میں نے پیا کا گاؤں رے کانٹا وہاں کا پھول تھا اور دھوپ جیسے چھاؤں رے جو دیکھنا چاہے انہیں آ کر مجھی کو دیکھ لے ان کا مرا اک روپ رے ان کا مرا اک ناؤں رے ہے ساتھ یوں دن رات کا کنگنا سے جیسے ہاتھ کا دل میں الجھا ہے یوں پائل میں جیسے پاؤں رے مہندی میں لالی جس ...

    مزید پڑھیے

    دل لٹے گا جہاں خفا ہوگا

    دل لٹے گا جہاں خفا ہوگا عشق میں جو بھی ہو بھلا ہوگا شہر کا شہر ہے اداس اداس میرے بارے میں کچھ سنا ہوگا اپنی بربادیوں کا رنج نہیں تیری تنہائیوں کا کیا ہوگا سر اٹھائے چلے چلو یارو کوئی تو خنجر آزما ہوگا ناز ہے اپنی بندگی پہ حسنؔ جس کو چاہیں وہی خدا ہوگا

    مزید پڑھیے

    یقین ٹوٹ چکا ہے گمان باقی ہے

    یقین ٹوٹ چکا ہے گمان باقی ہے ہمارے سر پہ ابھی آسمان باقی ہے چلے تو آئے ہیں ہم خواب سے حقیقت تک سفر طویل تھا اب تک تکان باقی ہے انہیں یہ زعم کہ فریاد کا چلن نہ رہا ہمیں یقین کہ منہ میں زبان باقی ہے ہر ایک سمت سے پتھراؤ ہے مگر اب تک لہولہان پرندے میں جان باقی ہے فسانہ شہر کی تعمیر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو

    اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو مصلحت پرستی پر ہر قدم رہا ہم کو جرم کا گماں لوگو خیر ہم تو کانٹے تھے اور ہمیں کچلنا بھی وقت کا تقاضا تھا پھول جن کو سمجھے تھے اب سنا ہے ان سے بھی ہیں وہ سرگراں لوگو جس کے عشق کی ہم پر تہمتیں لگاتے ہو اس حسین پیکر پر ہم نے دل ہی ...

    مزید پڑھیے

    جھلسے بدن نہ سلگیں آنکھیں ایسے ہیں دن رات مرے

    جھلسے بدن نہ سلگیں آنکھیں ایسے ہیں دن رات مرے کاش کبھی تم آ جاؤ بدلے ہیں حالات مرے میں کیا جانوں کس منزل کی کن راہوں کی کھوج میں ہوں میرا ٹھور ٹھکانا غم ہے کوئی نہ آئے ساتھ مرے تم رسونتی نرم لجیلی تازہ کونپل سبز کلی میں پت جھڑ کا مارا پیپل سوکھ چلے ہیں پات مرے تم کیا جانو ...

    مزید پڑھیے

    بے وفا نا مہرباں یہ سچ ہے وہ ایسا تو تھا

    بے وفا نا مہرباں یہ سچ ہے وہ ایسا تو تھا مت کہو کچھ اس کو یارو جو بھی تھا میرا تو تھا بھیڑ اتنی ہے نگر میں کس جگہ ڈھونڈوں اسے ایک چہرہ کچھ دنوں پہلے کہیں دیکھا تو تھا رات آئی اور آ کے مجھ کو تنہا کر گئی کم سے کم دن تھا تو میرے ساتھ اک سایہ تو تھا اب تو اک مدت ہوئی کوئی صدا آتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2