دنیا سے عقل و فہم کے آثار مر گئے
دنیا سے عقل و فہم کے آثار مر گئے سائے تو جی اٹھے در و دیوار مر گئے کشتیٔ زیست پار نہ لگ پائی لے کے وہ عقل و خرد کا ہاتھ میں پتوار مر گئے جن کو تھا خوف موت کا اپنی حیات میں اک بار کیا مرے وہ کئی بار مر گئے تھا امتحان شوق کیا نقد جاں قبول ہو کر خوشی سے ہم بڑے سرشار مر گئے خوشبو اڑا ...