جان محدود ہوتی جاتی ہے
جان محدود ہوتی جاتی ہے
موت مقصود ہوتی جاتی ہے
الاماں علم کی فراوانی
فکر مفقود ہوتی جاتی ہے
کر لی اصلاح اس تمدن کی
سعی بے سود ہوتی جاتی ہے
ہو سفر عشق کا کہ دانش کا
راہ مسدود ہوتی جاتی ہے
خود پرستی کا دور دورہ ہے
ذات معبود ہوتی جاتی ہے
دردؔ اس خلفشار عالم میں
زیست نابود ہوتی جاتی ہے