میری پلکوں پہ نہ آئے مرے اندر بولے
میری پلکوں پہ نہ آئے مرے اندر بولے ایک قطرہ کہ جو ٹپکے تو سمندر بولے زندگی چاہے کہ آواز سفر کرتی رہے میں نہ بولوں تو مری سوچ کا پیکر بولے اپنے زخموں کو دکھاؤں تو دکھا بھی نہ سکوں جو کرم مجھ پہ کئے میرا ستم گر بولے ان کا کیا ہے کہ سماعت بھی ہے جاگیر ان کی ہم جو بولے تو ہر اک دل میں ...