Hasan Akhtar Jaleel

حسن اختر جلیل

حسن اختر جلیل کی غزل

    کر کے سنگ غم ہستی کے حوالے مجھ کو

    کر کے سنگ غم ہستی کے حوالے مجھ کو آئینہ کہتا ہے اب دل میں چھپا لے مجھ کو میں نہ دریا ہوں نہ ساحل نہ سفینہ نہ بھنور داور غم کسی سانچے میں تو ڈھالے مجھ کو اک تبسم کے عوض ہیچ نہیں جنس وفا ہنس کے جو بات کرے اپنا بنا لے مجھ کو اتنا بھرپور کہاں تھا مرے غم کا اظہار اجنبی لگتے ہیں اب اپنے ...

    مزید پڑھیے

    جلتی ہوئی رتوں کے خریدار کون ہیں

    جلتی ہوئی رتوں کے خریدار کون ہیں اے پیکر غزل ترے بیمار کون ہیں خوشبو کی ساعتوں کے طلب گار کون ہیں اس زلف مشک بو کے گرفتار کون ہیں کب تک چھپے رہیں گے ازل خامشی کے بھید شہر صدا کے محرم اسرار کون ہیں کرنوں کی رہ گزار پہ اڑتی ہے دھول سی جو اس طرف گئے ہیں وہ جی دار کون ہیں سینوں میں ...

    مزید پڑھیے

    آئی پت جھڑ گرے فصل گل کے نشاں رات بھر میں

    آئی پت جھڑ گرے فصل گل کے نشاں رات بھر میں کٹ گئے کیسے کیسے سجیلے جواں رات بھر میں ٹوٹتی پتیوں کی نگاہوں میں بے چارگی ہے راکھ سی بجھ گئی پنچھیوں کی فغاں رات بھر میں دو گھڑی اور سن میری فرقت کے بیتاب نوحے ختم کیسے ہو اک عمر کی داستاں رات بھر میں تو جو آیا تو گزری بہاریں بھی ہم راہ ...

    مزید پڑھیے

    اک بھیانک تیرگی ہے روشنی اے روشنی

    اک بھیانک تیرگی ہے روشنی اے روشنی شمع جاں بجھنے لگی ہے روشنی اے روشنی کیا کوئی بھٹکا ہوا جگنو ادھر بھی آئے گا رات گہری ہو چلی ہے روشنی اے روشنی آسمانوں پر ستارے ہیں نہ سینوں میں شرار یہ قیامت کی گھڑی ہے روشنی اے روشنی ختم کب ہوگا یہ احساس زیاں کا رت جگا ایک اک لمحہ صدی ہے روشنی ...

    مزید پڑھیے

    سینے میں چراغ جل رہا ہے

    سینے میں چراغ جل رہا ہے ماتھے سے لہو ابل رہا ہے ہونٹوں پہ چمن کھلے ہوئے ہیں آنکھوں سے دھواں نکل رہا ہے پیکر پہ اگے ہوئے ہیں کانٹے احساس کا پیڑ پھل رہا ہے باطن میں بپا ہے ایک طوفاں دریا ہے کہ رخ بدل رہا ہے کیا وقت پڑا ہے اے غم جاں خود اپنا وجود کھل رہا ہے میں جس کی تلاش کو چلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2