حسن عباس رضا کی غزل

    ہم پریوں کے چاہنے والے خواب میں دیکھیں پریاں

    ہم پریوں کے چاہنے والے خواب میں دیکھیں پریاں دور سے روپ کا صدقہ بانٹیں ہاتھ نہ آئیں پریاں راہ میں حائل قاف پہاڑ اور ہاتھ چراغ سے خالی کیونکر جنوں کے چنگل سے ہم چھڑوائیں پریاں آشاؤں کی سوہنی سحری سیج سجائے رکھوں جانے کون گھڑی میرے گھر میں آن براجیں پریاں سارے شہر کو چاندنی کی ...

    مزید پڑھیے

    ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے

    ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے جیسے اک بھیڑیا ہر در سے لگا بیٹھا ہے ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے لٹ جانے کا گویا پہرے پہ کوئی خواجہ سرا بیٹھا ہے حرمتیں صنعت آہن کی طرح بکتی ہیں جس کو دیکھو وہ خریدار بنا بیٹھا ہے اور کیا رب سے وہ مانگیں گے فضیلت جن کے ذہن کورے ہیں مگر سر پہ ہما ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بچھڑ کے سمت سفر بھولنے لگے

    تجھ سے بچھڑ کے سمت سفر بھولنے لگے پھر یوں ہوا ہم اپنا ہی گھر بھولنے لگے قربت کے موسموں کی ادا یاد رہ گئی گزری رفاقتوں کا اثر بھولنے لگے ازبر ہیں یوں تو کوچۂ جاناں کے سب نشاں لیکن ہم اس کی راہ گزر بھولنے لگے پہنچے تھے ہم بھی شہر طلسمات میں مگر وہ اسم جس سے کھلنا تھا در بھولنے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے

    ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے بہت تنہا تھے اس نے اور تنہا کر دیا ہے اب اکثر آئینے میں اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں ہم ایسے تو نہیں تھے تو نے جیسا کر دیا ہے دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے اگرچہ دل میں گنجائش نہیں تھی پھر بھی ہم نے ترے غم ...

    مزید پڑھیے

    گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے

    گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے پھر اک شام وصال آگیں تجھے مہمان کرنا ہے سوا تیرے ہر اک شے کو ہٹا دینا ہے منظر سے اور اس کے بعد خود کو بے سر و سامان کرنا ہے میں اپنا دشت اپنے ساتھ لے کر گھر سے نکلا ہوں فنا کرنا ہے خود کو اور علی الاعلان کرنا ہے وفا کے گوشوارے میں مرا پہلا خسارہ ...

    مزید پڑھیے

    ارادہ تھا کہ اب کے رنگ دنیا دیکھنا ہے

    ارادہ تھا کہ اب کے رنگ دنیا دیکھنا ہے خبر کیا تھی کہ اپنا ہی تماشا دیکھنا ہے ڈسے گا بے بسی کا ناگ جانے اور کب تک نہ جانے اور کتنے دن یہ نقشہ دیکھنا ہے دعا کا شامیانہ بھی نہیں ہے اب تو سر پر سو خود کو حدت غم میں جھلستا دیکھنا ہے نہیں اب سوچنا کیا ہو چکا کیا ہوگا آگے بس اب تو ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا

    سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا ہم نے اسے چراغ جلانے نہیں دیا دزدان نیم شب نے بھی حیلے بہت کیے لیکن کسی کو خواب چرانے نہیں دیا اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا اس بار تو سوال بھی مشکل نہ تھا مگر اس بار بھی جواب قضا نے نہیں دیا کیا شخص تھا ...

    مزید پڑھیے

    زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے

    زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے اور اس کے بعد سدا آسمان ٹوٹتا ہے میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہوں جو ایک پل کو کبھی تیرا دھیان ٹوٹتا ہے کوئی پرندہ سا پر کھولتا ہے اڑنے کو پھر اک چھناکے سے یہ خاکدان ٹوٹتا ہے جسے بھی اپنی صفائی میں پیش کرتا ہوں وہی گواہ وہی مہربان ٹوٹتا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ہجر میں یوں ٹوٹ کر رویا نہیں کرتے

    کسی کے ہجر میں یوں ٹوٹ کر رویا نہیں کرتے یہ اپنا رنج ہے اور رنج کا چرچا نہیں کرتے جدائی کی رتوں میں صورتیں دھندلانے لگتی ہیں سو ایسے موسموں میں آئنہ دیکھا نہیں کرتے زیادہ سے زیادہ دل بچھا دیتے ہیں رستے میں مگر جس نے بچھڑنا ہو اسے روکا نہیں کرتے ہمیشہ اک مسافت گھومتی رہتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    گھر لوٹتے ہیں جب بھی کوئی یار گنوا کر

    گھر لوٹتے ہیں جب بھی کوئی یار گنوا کر رو لیتے ہیں ہم زاد کو سینے سے لگا کر کس کو تھی خبر اس میں تڑخ جائے گا دل بھی ہم خوش تھے بہت صحن میں دیوار اٹھا کر کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہیں حیرانیاں دل کی سو بار کہا ہے کہ نہ آئینہ تکا کر ساون میں تو خود سوزی بھی ہو جاتی ہے ناکام ریلا سا گزر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3