Hanif Tarin

حنیف ترین

حنیف ترین کی نظم

    دو دھاری تلوار

    خواہش کی تسکیں کی خاطر اپنے لا یعنی جذبوں کو لوح دل پر آنک رہے ہیں دیش بدیش کی خاک چھان کے گرتے پڑتے پھانک رہے ہیں اپنی دید سے غافل رہ کر نا دیدہ کو جھانک رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    ''دیوانوں کا نام ابد تک ہوتا ہے''

    سنا ہے اس نے پڑھتے پڑھتے آنکھوں کو حیران کیا ہے پشت سے لپٹے آئینوں کے زنگاروں کا دھیان کیا ہے صدیوں پر پھیلی، ان دیکھی روشنیوں کا گیان کیا ہے پل دو پل وشرام کیا تھا سنا ہے اس نے لکھتے لکھتے دفتر میں اپنے جیون کے دن کاٹے تو راتوں کا وردان دیا ہے گہری فکر کے موٹے موٹے شیشے پہن ...

    مزید پڑھیے

    ’’جب ترسیل بٹن تک پہنچی‘‘

    کل، ترا نامہ جو ملتا تھا ہمیں اس کے الفاظ تلے مدتیں، معنی کی تشریحوں میں لطف کا سیل رواں رہتا تھا راتیں بستر پہ نشہ خواب کا رکھ دیتی تھیں عطر میں ڈوبی ہوئی دھوپ کی پیمائش پر چاندنی ،نیند کو لوری کی تھپک دیتی تھی ذہن میں صبح و مسا اک عجب فرحت نو رستہ سفر کرتی تھی لیکن اب۔۔۔ قربتیں ...

    مزید پڑھیے

    دھرتی کا اپہار ملا جب

    خود میں اتر کر میں رویا تھا باہر منظر پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا ہر شے ڈوب گئی تھی اور میں اس پل اپنے تن کی کشتی کھیتا سات سمندر پار گیا تھا سورج تاروں اور امبر نے گلے لگا کر دھرتی کا اپہار دیا تھا سب کچھ مجھ پر وار دیا تھا

    مزید پڑھیے

    سانپ کا سایہ خواب مرے ڈس جاتا ہے

    کتنی دفعہ تو بڑھا، رکا میں اس کی جانب صدیوں وہ مہکا کر میرا ظاہر و باطن کئی یگوں تک، اس نے مجھ کو یاد کیا اور کہا یہ، ندی ہوں میں ناؤ بنو تم ڈولو مجھ پر جھوم اٹھو تن کی چاندی سونا پا کر لیکن میرے جسم کے ویرانے سے کوئی ہر دم مجھ کو تاک رہا ہے تن سے آگے من نگری میں جھانک رہا ہے نیند نشے ...

    مزید پڑھیے