دو دھاری تلوار
خواہش کی تسکیں کی خاطر اپنے لا یعنی جذبوں کو لوح دل پر آنک رہے ہیں دیش بدیش کی خاک چھان کے گرتے پڑتے پھانک رہے ہیں اپنی دید سے غافل رہ کر نا دیدہ کو جھانک رہے ہیں
خواہش کی تسکیں کی خاطر اپنے لا یعنی جذبوں کو لوح دل پر آنک رہے ہیں دیش بدیش کی خاک چھان کے گرتے پڑتے پھانک رہے ہیں اپنی دید سے غافل رہ کر نا دیدہ کو جھانک رہے ہیں
سنا ہے اس نے پڑھتے پڑھتے آنکھوں کو حیران کیا ہے پشت سے لپٹے آئینوں کے زنگاروں کا دھیان کیا ہے صدیوں پر پھیلی، ان دیکھی روشنیوں کا گیان کیا ہے پل دو پل وشرام کیا تھا سنا ہے اس نے لکھتے لکھتے دفتر میں اپنے جیون کے دن کاٹے تو راتوں کا وردان دیا ہے گہری فکر کے موٹے موٹے شیشے پہن ...
کل، ترا نامہ جو ملتا تھا ہمیں اس کے الفاظ تلے مدتیں، معنی کی تشریحوں میں لطف کا سیل رواں رہتا تھا راتیں بستر پہ نشہ خواب کا رکھ دیتی تھیں عطر میں ڈوبی ہوئی دھوپ کی پیمائش پر چاندنی ،نیند کو لوری کی تھپک دیتی تھی ذہن میں صبح و مسا اک عجب فرحت نو رستہ سفر کرتی تھی لیکن اب۔۔۔ قربتیں ...
خود میں اتر کر میں رویا تھا باہر منظر پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا ہر شے ڈوب گئی تھی اور میں اس پل اپنے تن کی کشتی کھیتا سات سمندر پار گیا تھا سورج تاروں اور امبر نے گلے لگا کر دھرتی کا اپہار دیا تھا سب کچھ مجھ پر وار دیا تھا
اس کے بدن کی پاگل خوشبو اپنے پروں پر مجھ کو اڑائے چاروں دشا کی سیر کرائے رات جگائے دن سلگائے
کتنی دفعہ تو بڑھا، رکا میں اس کی جانب صدیوں وہ مہکا کر میرا ظاہر و باطن کئی یگوں تک، اس نے مجھ کو یاد کیا اور کہا یہ، ندی ہوں میں ناؤ بنو تم ڈولو مجھ پر جھوم اٹھو تن کی چاندی سونا پا کر لیکن میرے جسم کے ویرانے سے کوئی ہر دم مجھ کو تاک رہا ہے تن سے آگے من نگری میں جھانک رہا ہے نیند نشے ...
ساری رونق اور لطافت جن رنگوں کے ساتھ بندھی ہے وہ سکھ کے ان رنگوں کو بھی تنہائی میں سان رہے ہیں میرے دکھوں کو تان رہے ہیں