Hanif Tarin

حنیف ترین

حنیف ترین کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے

    دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے شب مرحوم کے خوابوں سا بکھر جاتا ہے کوئی پیمان وفا صبر سے بھر جاتا ہے چار و ناچار کی دہشت میں گزر جاتا ہے دھانی آوازوں کے سر تال میں بہتے بہتے رقص صحرائی کے وہ بن میں اتر جاتا ہے ریت پر جلتے ہوئے دیکھ سرابوں کے چراغ اپنے بکھراؤ میں وہ اور سنور ...

    مزید پڑھیے

    آئیے آسماں کی اور چلیں

    آئیے آسماں کی اور چلیں ساتھ لے کر زمیں کا شور چلیں چاند الفت کا استعارہ ہے جس کی جانب سبھی چکور چلیں یوں دبے پاؤں آئی تیری یاد جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں دل کی دنیا عجیب دنیا ہے عقل کے اس پہ کچھ نہ زور چلیں سبز رت چھائی یوں ان آنکھوں کی جس طرح ناچ ناچ مور چلیں تم بھی یوں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا

    احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا شاید وہ اس گھڑی بھی مرے آس پاس تھا محفل میں پھول خوشیوں کے جو بانٹتا رہا تنہائی میں ملا تو بہت ہی اداس تھا ہر زخم کہنہ وقت کے مرہم نے بھر دیا وہ درد بھی مٹا جو خوشی کی اساس تھا انگڑائی لی سحر نے تو لمحے چہک اٹھے جنگل میں ورنہ رات کے خوف و ہراس ...

    مزید پڑھیے

    سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی

    سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی تو صبح نوحۂ معتوب گنگنائے گی میں ہنس پڑوں گا تو پھر کسمسا اٹھے گی فضا ہوائے تند مری لو جو گدگدائے گی نمو میں موج بنے گی تمازت فردا ردائے تیرگی جتنے قدم بڑھائے گی زمین گائے گی آم اور جامنوں کے گیت برستی بدلی وہ سر تال آزمائے گی جہاں پہ چاند زمیں سے ...

    مزید پڑھیے

    نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا

    نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا جب ذرا موسم سہانا ہو گیا تجھ سے ملنا تو کجا اے جان جاں تجھ کو دیکھے اب زمانہ ہو گیا مڑ کے دیکھا جب بھی پیچھے کی طرف آج دھندلا کل فسانہ ہو گیا گلستاں زادے بہت ہی شاد ہیں جب سے زنداں میں ٹھکانہ ہو گیا جیت حق کی ظالموں کے واسطے خوں بہانے کا بہانہ ہو گیا سچ ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    دو دھاری تلوار

    خواہش کی تسکیں کی خاطر اپنے لا یعنی جذبوں کو لوح دل پر آنک رہے ہیں دیش بدیش کی خاک چھان کے گرتے پڑتے پھانک رہے ہیں اپنی دید سے غافل رہ کر نا دیدہ کو جھانک رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    ''دیوانوں کا نام ابد تک ہوتا ہے''

    سنا ہے اس نے پڑھتے پڑھتے آنکھوں کو حیران کیا ہے پشت سے لپٹے آئینوں کے زنگاروں کا دھیان کیا ہے صدیوں پر پھیلی، ان دیکھی روشنیوں کا گیان کیا ہے پل دو پل وشرام کیا تھا سنا ہے اس نے لکھتے لکھتے دفتر میں اپنے جیون کے دن کاٹے تو راتوں کا وردان دیا ہے گہری فکر کے موٹے موٹے شیشے پہن ...

    مزید پڑھیے

    ’’جب ترسیل بٹن تک پہنچی‘‘

    کل، ترا نامہ جو ملتا تھا ہمیں اس کے الفاظ تلے مدتیں، معنی کی تشریحوں میں لطف کا سیل رواں رہتا تھا راتیں بستر پہ نشہ خواب کا رکھ دیتی تھیں عطر میں ڈوبی ہوئی دھوپ کی پیمائش پر چاندنی ،نیند کو لوری کی تھپک دیتی تھی ذہن میں صبح و مسا اک عجب فرحت نو رستہ سفر کرتی تھی لیکن اب۔۔۔ قربتیں ...

    مزید پڑھیے

    دھرتی کا اپہار ملا جب

    خود میں اتر کر میں رویا تھا باہر منظر پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا ہر شے ڈوب گئی تھی اور میں اس پل اپنے تن کی کشتی کھیتا سات سمندر پار گیا تھا سورج تاروں اور امبر نے گلے لگا کر دھرتی کا اپہار دیا تھا سب کچھ مجھ پر وار دیا تھا

    مزید پڑھیے

تمام