Hanif Tarin

حنیف ترین

حنیف ترین کی غزل

    دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے

    دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے شب مرحوم کے خوابوں سا بکھر جاتا ہے کوئی پیمان وفا صبر سے بھر جاتا ہے چار و ناچار کی دہشت میں گزر جاتا ہے دھانی آوازوں کے سر تال میں بہتے بہتے رقص صحرائی کے وہ بن میں اتر جاتا ہے ریت پر جلتے ہوئے دیکھ سرابوں کے چراغ اپنے بکھراؤ میں وہ اور سنور ...

    مزید پڑھیے

    آئیے آسماں کی اور چلیں

    آئیے آسماں کی اور چلیں ساتھ لے کر زمیں کا شور چلیں چاند الفت کا استعارہ ہے جس کی جانب سبھی چکور چلیں یوں دبے پاؤں آئی تیری یاد جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں دل کی دنیا عجیب دنیا ہے عقل کے اس پہ کچھ نہ زور چلیں سبز رت چھائی یوں ان آنکھوں کی جس طرح ناچ ناچ مور چلیں تم بھی یوں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا

    احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا شاید وہ اس گھڑی بھی مرے آس پاس تھا محفل میں پھول خوشیوں کے جو بانٹتا رہا تنہائی میں ملا تو بہت ہی اداس تھا ہر زخم کہنہ وقت کے مرہم نے بھر دیا وہ درد بھی مٹا جو خوشی کی اساس تھا انگڑائی لی سحر نے تو لمحے چہک اٹھے جنگل میں ورنہ رات کے خوف و ہراس ...

    مزید پڑھیے

    سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی

    سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی تو صبح نوحۂ معتوب گنگنائے گی میں ہنس پڑوں گا تو پھر کسمسا اٹھے گی فضا ہوائے تند مری لو جو گدگدائے گی نمو میں موج بنے گی تمازت فردا ردائے تیرگی جتنے قدم بڑھائے گی زمین گائے گی آم اور جامنوں کے گیت برستی بدلی وہ سر تال آزمائے گی جہاں پہ چاند زمیں سے ...

    مزید پڑھیے

    نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا

    نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا جب ذرا موسم سہانا ہو گیا تجھ سے ملنا تو کجا اے جان جاں تجھ کو دیکھے اب زمانہ ہو گیا مڑ کے دیکھا جب بھی پیچھے کی طرف آج دھندلا کل فسانہ ہو گیا گلستاں زادے بہت ہی شاد ہیں جب سے زنداں میں ٹھکانہ ہو گیا جیت حق کی ظالموں کے واسطے خوں بہانے کا بہانہ ہو گیا سچ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا

    آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا درد کا رشتہ اپنی آن نہیں کھوتا بستی کے حساس دلوں کو چبھتا ہے سناٹا جب ساری رات نہیں ہوتا من نگری میں دھوم دھڑکا رہتا ہے میرا میں جب میرے ساتھ نہیں ہوتا بن جاتے ہیں لمحے بھی کتنے سنگین وقت کبھی جب اپنا بوجھ نہیں ڈھوتا رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے گلابی ہونٹ تو رس میں بسے لگے

    اس کے گلابی ہونٹ تو رس میں بسے لگے لیکن بدن کے ذائقے بے کیف سے لگے ٹوٹے قدم قدم پہ جو اپنی لچک کے ساتھ وہ دلدلوں میں ذات کی مجھ کو پھنسے لگے تمثیل بن گئے ہیں سمندر کی جھاگ کی صحرائے غم کی راکھ میں جو بھی دھنسے لگے جن کا یقین راہ سکوں کی اساس ہے وہ بھی گمان دشت میں مجھ کو پھنسے ...

    مزید پڑھیے

    سلگتی یاد سے خوں اٹ نہ جائے

    سلگتی یاد سے خوں اٹ نہ جائے دھوئیں سے دل کی کھائی پٹ نہ جائے نئی فکروں سے بھیجا پھٹ نہ جائے جو غم میرا ہے سب میں بٹ نہ جائے سرابوں کو جلائے رکھ کہ جب تک یہ چیخیں مارتی شب ہٹ نہ جائے مسلسل بارش افتاد سہہ کر سڑک پیمائشوں کی کٹ نہ جائے بدن کا گھر ہے دیمک پھیلنے سے یہ ڈر ہے دل کا ...

    مزید پڑھیے

    گردش کی رقابت سے جھگڑے کے لیے تھا

    گردش کی رقابت سے جھگڑے کے لیے تھا جو عہد مرا تتلی پکڑنے کے لیے تھا جس کے لیے صدیاں کئی تاوان میں دی ہیں وہ لمحہ تو مٹی میں جکڑنے کے لیے تھا حالات نے کی جان کے جب دست درازی ہر صلح کا پہلو ہی جھگڑنے کے لیے تھا منہ زوریاں کیوں مجھ سے سزا وار تھیں اس کو پھیلاؤ جہاں اس کا سکڑنے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا

    کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا تنہا شبی کو اور بھی سنجیدہ کر دیا احساس نارسائی کی بنجر زمین کو کس کے خیال سبز نے بالیدہ کر دیا کل ہم نے طشت بام پہ شب خون مار کر بستر اچٹتی نیند کا خوابیدہ کر دیا بیتے غموں کو آج کی تلخی میں گھول کر مستقبل حیات کو لغزیدہ کر دیا ہر روز کی نئی نئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2