Hanif Fauq

حنیف فوق

ماہرِ لسانیات، نقاد، محقق، شاعر، سابق مدیر اعلیٰ اردو لغت بورڈ

حنیف فوق کی غزل

    کیا نظر کی ہشیاری خود اسیر مستی ہے

    کیا نظر کی ہشیاری خود اسیر مستی ہے جو نگاہ اٹھتی ہے محو خود پرستی ہے بادلوں کو تکتا ہوں جانے کتنی مدت سے ایک بوند پانی کو یہ زباں ترستی ہے اک جنم کے پیاسے بھی سیر ہوں تو ہم جانیں یوں تو رحمت یزداں چار سو برستی ہے رات غم کی آئی ہے ہوشیار دل والو دیکھنا ہے یہ ناگن آج کس کو ڈستی ...

    مزید پڑھیے

    فضاؤں میں کچھ ایسی کھلبلی تھی

    فضاؤں میں کچھ ایسی کھلبلی تھی کلیجہ تھام کر وحشت چلی تھی کبھی اس کی جوانی منچلی تھی کبھی دنیا بھی سانچے میں ڈھلی تھی یہی آئینہ در آئینہ الفت کبھی عکس‌ خفی نقش جلی تھی نہ چھوڑا سرد جھونکوں نے وفا کو جو شاخ درد کی تنہا کلی تھی بگاڑا کس نے ہے طبع جہال کو کبھی یہ رند مشرب بھی ولی ...

    مزید پڑھیے

    مری حیات اگر مژدۂ سحر بھی نہیں

    مری حیات اگر مژدۂ سحر بھی نہیں ستم یہ ہے کہ ترے غم کی رہ گزر بھی نہیں چمن میں ہوں میں پریشان مثل موج نسیم چٹک کے غنچے کہیں گے ہمیں خبر بھی نہیں نشاط و کیف کے لمحوں ذرا ٹھہر جاؤ بہار راہ میں ہے دور کا سفر بھی نہیں میں تیری جنبش مژگاں سے کانپ جاتا ہوں اگرچہ دل کو غم دو جہاں سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    آہ و فریاد سے معمور چمن ہے کہ جو تھا

    آہ و فریاد سے معمور چمن ہے کہ جو تھا مائل جور وہی چرخ کہن ہے کہ جو تھا حسن پابندیٔ آداب جفا پر مجبور عشق آوارہ سر کوہ و دمن ہے کہ جو تھا لاکھ بدلا سہی منصور کا آئین حیات آج بھی سلسلۂ دار و رسن ہے کہ جو تھا ڈر کے چونک اٹھتی ہیں خوابوں سے نویلی کلیاں خندۂ گل میں وہی ساز محن ہے کہ جو ...

    مزید پڑھیے

    نسیم‌ صبح بہار آئے دل حزیں کو قرار آئے

    نسیم‌ صبح بہار آئے دل حزیں کو قرار آئے کلی کلی لے کے منہ اندھیرے صباحت روئے یار آئے اداس راتوں کی تیرگی میں نہ کوئی تارا نہ کوئی جگنو کسی کا نقش قدم ہی چمکے تو نور کا اعتبار آئے یہ شعلہ سامانیٔ تکلم یہ آئنہ خانۂ تبسم جگر سے جیسے دھواں سا اٹھے نظر کو جیسے خمار آئے اسی کی خاطر ...

    مزید پڑھیے

    دل ناداں پہ شکایت کا گماں کیا ہوگا

    دل ناداں پہ شکایت کا گماں کیا ہوگا چند اشکوں سے جفاؤں کا بیاں کیا ہوگا شب کے بھٹکے ہوئے راہی کو خبر دے کوئی صبح رنگیں کی بہاروں کا نشاں کیا ہوگا نالہ‌ٔ مرغ گرفتار سے بے زاری کیا گوش صیاد پہ اب یہ بھی گراں کیا ہوگا سچ کے کہنے سے اگر جی کا زیاں ہوتا ہے سچ بہرحال ہے سچ مہر دہاں کیا ...

    مزید پڑھیے

    چشم پر نم ابھی مرہون اثر ہو نہ سکی

    چشم پر نم ابھی مرہون اثر ہو نہ سکی زندگی خاک نشینوں کی بسر ہو نہ سکی میکدے کی وہی مانوس فضا اور دل زار ایک بھی رات بہ انداز دگر ہو نہ سکی غم جاناں غم دوراں کی گزر گاہوں سے گزرے کچھ ایسے کہ خود اپنی خبر ہو نہ سکی دھندلے دھندلے نظر آتے تو ہیں قدموں کے نشاں گرچہ پر نور ابھی راہ گزر ...

    مزید پڑھیے

    رات کے در پہ یہ دستک یہ مسلسل دستک (ردیف .. ے)

    رات کے در پہ یہ دستک یہ مسلسل دستک آمد صبح فروزاں کا پتا دیتی ہے پھونک ڈالے گی یہ اک روز قبائے صیاد آتش گل کو صبا اور ہوا دیتی ہے تیرگی زادوں سے کب نور کا سیلاب تھمے فیصلہ وقت کا تاریخ سنا دیتی ہے آنچ آتی ہے ستاروں سے جو کچھ پچھلے پہر خواب شیریں سے نگاروں کو جگا دیتی ہے کتنی ...

    مزید پڑھیے

    جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے

    جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے آگ سے نکلے تو انگارہ بنے شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر کوئی آنسو آئے اور تارا بنے لوح دل پہ نقش اب کوئی نہیں وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے اب کسی لمحہ کو منزل مان لیں در بدر پھرتے ہیں بنجارا بنے کم ہو گر جھوٹے ستاروں کی نمود یہ زمیں بھی انجمن آرا ...

    مزید پڑھیے

    یہ فضائے نیلگوں یہ بال و پر کافی نہیں

    یہ فضائے نیلگوں یہ بال و پر کافی نہیں ماہ و انجم تک مرا ذوق سفر کافی نہیں ایک ساعت اک صدی ہے اک نظر آفاق گیر اب نظام گردش شام و سحر کافی نہیں پھر جنوں کو وسعت افلاک ہے کوہ ندا اے دل دیوانہ دشت پر خطر کافی نہیں یہ ہوائے نم یہ سینے میں سلگتی آگ سی آہ یہ عمر رواں کی رہگزر کافی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2