Hafeez Karnatki

حفیظ کرناٹکی

حفیظ کرناٹکی کی غزل

    یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے

    یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے سورج کی وراثت میں اجالا بھی نہیں ہے سو رستے کمانے کے نظر آتے ہیں لیکن کھانے کے لیے ایک نوالہ بھی نہیں ہے لب نام ترا لینے سے کترانے لگے ہیں حالانکہ تجھے دل سے نکالا بھی نہیں ہے کیوں سرخ ہوا ہے یہ فلک آج سر شام میں نے تو لہو اپنا اچھالا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں

    کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں سیاست سینکڑوں چہرے ترے چہرے سے نکلے ہیں ہمارے دور کے بچے سبق پڑھتے ہیں چاہت کا کتابوں کے بجائے دل ہر اک بستے سے نکلے ہیں ہر اک بھائی کی خواہش ہے کہ بٹوارا ہو اب گھر کا ابھی ہم ملک کی تقسیم کے صدمے سے نکلے ہیں ادھر دیکھو یہاں ماں ہے ادھر ہے ...

    مزید پڑھیے

    دور کے ڈھول سہانے ہیں

    دور کے ڈھول سہانے ہیں صدیوں کے افسانے ہیں شمع محبت جل کے سمجھ ہم تیرے پروانے ہیں دل میں اتر کر دیکھ ذرا چاہت کے تہہ خانے ہیں مانگ رہے ہیں تجھ سے وفا ہم بھی کیا دیوانے ہیں یاروں کی بد نیت سے شرمندہ یارانے ہیں حافظؔ اب ٹکڑے ٹکڑے ذہن کے تانے بانے ہیں

    مزید پڑھیے

    رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو

    رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو یہ اندھیرے ہیں مہمان اک رات کے تم مگر صبح تک جگمگاتے رہو میں بھلانے کی کوشش کروں گا تمہیں تم مجھے روز و شب یاد آتے رہو راہ کے پیچ و خم خود سلجھ جائیں گے سوئے منزل قدم کو بڑھاتے رہو ابر بن کر برستے رہو ہر طرف عمر شادابیوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2