آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے
آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے خواب ہمارے ٹوٹ گئے کل موجوں میں جنگ ہوئی اور کنارے ٹوٹ گئے قطرہ قطرہ برف بنا اور فوارے ٹوٹ گئے میری پلکوں سے گر کے آنسو سارے ٹوٹ گئے حافظؔ وقت برا آیا دیکھ سہارے ٹوٹ گئے
آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے خواب ہمارے ٹوٹ گئے کل موجوں میں جنگ ہوئی اور کنارے ٹوٹ گئے قطرہ قطرہ برف بنا اور فوارے ٹوٹ گئے میری پلکوں سے گر کے آنسو سارے ٹوٹ گئے حافظؔ وقت برا آیا دیکھ سہارے ٹوٹ گئے
دل میں دھڑکن لب میں جنبش چاہیے زندہ رہنے کو یہ ورزش چاہیے آدمی ہونے کا دینے کو ثبوت پاؤں میں تھوڑی سی لغزش چاہیے بیٹھے بیٹھے قسمتیں بنتی نہیں عزم محنت اور کوشش چاہیے امتزاج عیش و غم ہے زندگی لاکھ خوشیاں بھی ہوں رنجش چاہیے حافظؔ اس کو جستجو سورج کی ہے اور تمہیں بھی ایک مہ وش ...
دیکھو اپنی آنکھ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا تم سے مجھ کو مجھ سے تم کو آج محبت ہو گئی نا میں نے کہا تھا دھوپ میں میرے ساتھ نہ تم چل پاؤ گے میلی میلی تمہاری اجلی چاند سی صورت ہو گئی نا محفل میں ہنستے ہیں لیکن تنہائی میں روتے ہیں ایک سی میری اور تمہاری اب یہ حالت ہو گئی نا دوزخ میں ...
پھول نہیں تو کانٹا دے مجھ کو کوئی تحفہ دے شبنم مانگ رہے ہیں گل اپنی آنکھیں چھلکا دے پتھر کاٹ کے کیڑے کو پالنے والا دانہ دے دھوپ میں جلتا ہے دن بھر سورج کو اک چشمہ دے حافظؔ وقت اگر چاہے حاتم کو بھی کاسہ دے
رات پرانی لگتی ہے بوڑھی نانی لگتی ہے میں راجا ہوں سپنوں کا اور وہ رانی لگتی ہے جو میری سانسوں کی طرح آنی جانی لگتی ہے یاد آتی ہے جب اس کی شام سہانی لگتی ہے میں دیوانہ لگتا ہوں وہ دیوانی لگتی ہے دل جب ٹوٹنے لگتا ہے دنیا فانی لگتی ہے شاعری آپ کی اے حافظؔ اپنی کہانی لگتی ہے
مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے صلہ تو دور ہے احسان بھی نہیں رکھتے وہ برکتوں کے فرشتوں کے انتظار میں ہیں گھروں میں اپنے جو قرآن بھی نہیں رکھتے جنہیں خلوص کی خوشبو عزیز ہوتی ہے وہ اپنی میز پہ گلدان بھی نہیں رکھتے وہ حادثوں سے ڈراتے ہیں اپنے بچوں کو دیوں کے سامنے طوفان بھی ...
یہ مہکتے ہوئے جذبات یہ اشعار کے پھول کاش کام آئیں کسی کے مرے افکار کے پھول میرے دل نے جو سجا رکھے ہیں زخموں کی طرح کھل نہ پائے کسی گلشن میں وہ معیار کے پھول سونگھتی ہیں انہیں خوش ہو کے بہشتی حوریں سرفروشوں کے بدن پر ہیں جو تلوار کے پھول یہ مرے اشک ندامت ہیں خدا کو محبوب دنیا ...
آدمی نور ہے جلوۂ طور ہے رب ہے مختار کل بندہ مجبور ہے نشۂ حرص میں ہر کوئی چور ہے صالحوں کے لیے وعدۂ حور ہے کیا ہے صیہونیت ایک ناسور ہے مغلیہ سلطنت عزم تیمور ہے حافظؔ انسان سے زندگی دور ہے
عقل سے کام کر دہر میں نام کر میں نے دیکھا اسے اپنا دل تھام کر قوم کا ہو بھلا ایسا اقدام کر اپنا ہر رنج و غم تو مرے نام کر زندگی ہے یہی صبح سے شام کر مول اپنا بڑھا مجھ کو بے دام کر دیر حافظؔ نہ ہو جلد ہر کام کر
ہم نے سیکھا ہے محبت کرنا ایک اک دل پہ حکومت کرنا ہم بھی تاریخ بدل سکتے ہیں شرط ہے ہمت و جرأت کرنا زیب دیتا نہیں انسانوں کو کسی انساں کی عبادت کرنا رکھ کے خود اپنی ضرورت کو ادھار پوری اوروں کی ضرورت کرنا شب کی تاریکی میں سیکھا ہم نے چاند تاروں کی تلاوت کرنا آخری سانس تلک جیون ...