Hafeez Jaunpuri

حفیظ جونپوری

اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور

Famous for his sher, 'Baith jaata hun jahan chhanv ghani hoti hai.'

حفیظ جونپوری کی غزل

    دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت

    دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت جمع اس گھر میں ہیں مہمان بہت آئے تو دست جنوں زوروں پر چاک کرنے کو گریبان بہت میری جانب سے دل اس کا نہ پھرا دشمنوں نے تو بھرے کان بہت لے کے اک دل غم کونین دیا آپ کے مجھ پہ ہیں احسان بہت ترک الفت کا ہمیں کو ہے غم وہ بھی ہیں دل میں پشیمان بہت دل کے ...

    مزید پڑھیے

    ان کو دل دے کے پشیمانی ہے

    ان کو دل دے کے پشیمانی ہے یہ بھی اک طرح کی نادانی ہے وصل سے آج نیا ہے انکار تم نے کب بات مری مانی ہے آپ دیتے ہیں تسلی کس کو ہم نے اب اور ہی کچھ ٹھانی ہے حال بن پوچھے کہے جاتا ہوں اپنے مطلب کی یہ نادانی ہے کس قدر بار ہوں غم خواروں پر کیا سبک میری گراں جانی ہے گھر بلا کر وہ مجھے ...

    مزید پڑھیے

    شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے

    شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے کسی نے لوٹ لیا اپنے گھر بلا کے مجھے پکارتا نہیں کوئی لحد پر آ کے مجھے مرے نصیب بھی کیا سو رہے سلا کے مجھے وہ بولے وصل کے شب آپ میں نہ پا کے مجھے چلے گئے ہیں کہاں اپنے گھر بلا کے مجھے گرا دیا ہے کچھ اس طرح اس نے آنکھوں سے کہ دیکھتا نہیں کوئی نظر ...

    مزید پڑھیے

    آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب

    آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب آرزو میرے دل کی بر آئے سب کا پورا کرے خدا مطلب کر نہ مجھ کو سبک رقیبوں میں یوں ہنسی میں نہ تو اڑا مطلب رک گئی بات تا زباں آ کر دل کا دل ہی میں رہ گیا مطلب ضد ہی ضد شیخ و برہمن کی تھی ورنہ دونوں کا ایک تھا مطلب میری اک بات میں ...

    مزید پڑھیے

    ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے

    ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے ہوئی دل کی دل کو خبر ہوتے ہوتے بڑھی چاہ دونوں طرف بڑھتے بڑھتے محبت ہوئی اس قدر ہوتے ہوتے ترا راستہ شام سے تکتے تکتے مری آس ٹوٹی سحر ہوتے ہوتے کئے جا ابھی مشق فریاد بلبل کہ ہوتا ہے پیدا اثر ہوتے ہوتے نہ سنبھلا محبت کا بیمار آخر گئی جان درد جگر ...

    مزید پڑھیے

    عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے

    عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے نظر نہ جس سے ملاتے تھے ہم وہی اب آنکھیں دکھا رہا ہے بڑھی ہے آپس میں بد گمانی مزہ محبت کا آ رہا ہے ہم اس کے دل کو ٹٹولتے ہیں تو ہم کو وہ آزما رہا ہے گھر اپنا کرتی ہے نا امیدی ہمارے دل میں غضب ہے دیکھیو یہ وہ مکاں ہے کہ جس میں برسوں ...

    مزید پڑھیے

    دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید

    دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید قاصد پھرا ہے لے کر خط کا جواب شاید آنکھیں چڑھی ہوئی ہیں باتیں ہیں بہکی بہکی آئے ہو تم کہیں سے پی کر شراب شاید کیا جانے کس ہوا میں اتنا ابھر رہا ہے ہستی نہیں سمجھتا اپنی حباب شاید مجھ پر جو وہ سحر سے اس درجہ مہرباں ہیں شب کی دعا ہوئی ہے کچھ مستجاب ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو دکھا دکھا کے غیروں کے عطر ملنا

    ہم کو دکھا دکھا کے غیروں کے عطر ملنا آتا ہے خوب تم کو چھاتی پہ مونگ دلنا محشر بپا کیا ہے رفتار نے تمہاری اس چال کے تصدق یہ بھی ہے کوئی چلنا غیروں کے گھر تو شب کو جاتے ہو بارہا تم بھولے سے میرے گھر بھی اک روز آ نکلنا ہٹ کی کچھ انتہا ہے ضد کی بھی کوئی حد ہے یہ بات بات پر تو اچھا ...

    مزید پڑھیے

    خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے

    خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے روز کب تک کوئی پوچھا کرے حال اچھا ہے ہجر میں عیش گزشتہ کا خیال اچھا ہے ہو جھلک جس میں خوشی کی وہ مآل اچھا ہے داغ بہتر ہے وہی ہو جو دل عاشق میں جور ہے عارض خوباں پہ وہ خال اچھا ہے دیکھ ان خاک کے پتلوں کی ادائیں زاہد ان سے کس بات میں حوروں کا ...

    مزید پڑھیے

    کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا

    کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا وہ اور بات تھی جس سے مجھے قرار نہ تھا شب وصال وہ کس ناز سے یہ کہتے ہیں ہمارے ہجر میں سچ مچ تجھے قرار نہ تھا بگھارتا ہے جو اب شیخ زہد کی باتیں تو کیا یہ عہد جوانی میں بادہ خوار نہ تھا فقط تھی ایک خموشی مرے سخن کا جواب نہیں نہیں تجھے کہنا ہزار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5