کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے
کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے حدود شام و سحر سے نکل کے دیکھ آئے نہیں پیام رہ نامہ و پیام تو ہے ابھی صبا سے کہو ان کے دل کو بہلائے غرور جادہ شناسی بجا سہی لیکن سراغ منزل مقصود بھی کوئی پائے خدا وہ دن نہ دکھائے کہ راہبر یہ کہے چلے تھے جانے کہاں سے کہاں نکل آئے گزر گیا کوئی ...