Hafeez Hoshiarpuri

حفیظ ہوشیارپوری

  • 1912 - 1973

اپنی غزل ’ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

Popular poet famous for his widely-sung ghazal "mohabbat karne wale kam na honge, teri mahfil mein lekin ham na honge".

حفیظ ہوشیارپوری کی غزل

    کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے

    کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے حدود شام و سحر سے نکل کے دیکھ آئے نہیں پیام رہ نامہ و پیام تو ہے ابھی صبا سے کہو ان کے دل کو بہلائے غرور جادہ شناسی بجا سہی لیکن سراغ منزل مقصود بھی کوئی پائے خدا وہ دن نہ دکھائے کہ راہبر یہ کہے چلے تھے جانے کہاں سے کہاں نکل آئے گزر گیا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اک عمر سے ہم تم آشنا ہیں

    اک عمر سے ہم تم آشنا ہیں ہم سے مہ و انجم آشنا ہیں دل ڈوبتا جا رہا ہے پیہم لب ہیں کہ تبسم آشنا ہیں ان منزلوں کا سراغ کم ہے جن منزلوں میں گم آشنا ہیں کچھ چارۂ درد آشنائی کس سوچ میں گم سم آشنا ہیں اس دور میں تشنہ کام ساقی ہم جیسے کئی خم آشنا ہیں

    مزید پڑھیے

    غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے

    غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے تہمت عشق لگی ہم پہ سخن ور بن کے وہ نہیں موت سہی موت نہیں نیند سہی کوئی آ جائے شب غم کا مقدر بن کے راہبر تم کو بنایا ہمیں معلوم نہ تھا راہرو راہ بھٹک جاتے ہیں رہبر بن کے اس زیاں خانے میں اک قطرے پہ کیا کیا گزری کبھی آنسو کبھی شبنم کبھی گوہر بن کے موت ...

    مزید پڑھیے

    آج انہیں کچھ اس طرح جی کھول کر دیکھا کئے

    آج انہیں کچھ اس طرح جی کھول کر دیکھا کئے ایک ہی لمحے میں جیسے عمر بھر دیکھا کئے دل اگر بیتاب ہے دل کا مقدر ہے یہی جس قدر تھی ہم کو توفیق نظر دیکھا کئے خود فروشانہ ادا تھی میری صورت دیکھنا اپنے ہی جلوے بہ انداز دگر دیکھا کئے ناشناس غم فقط داد ہنر دیتے رہے ہم متاع غم کو رسوائے ہنر ...

    مزید پڑھیے

    ایسی بھی کیا جلدی پیارے جانے ملیں پھر یا نہ ملیں ہم

    ایسی بھی کیا جلدی پیارے جانے ملیں پھر یا نہ ملیں ہم کون کہے گا پھر یہ فسانہ بیٹھ بھی جاؤ سن لو کوئی دم وصل کی شیرینی میں پنہاں ہجر کی تلخی بھی ہے کم کم تم سے ملنے کی بھی خوشی ہے تم سے جدا ہونے کا بھی غم حسن و عشق جدا ہوتے ہیں جانے کیا طوفان اٹھے گا حسن کی آنکھیں بھی ہیں پر نم عشق کی ...

    مزید پڑھیے

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ کیوں مری آنکھوں میں آ گئے آنسو (ردیف .. ے)

    نہ پوچھ کیوں مری آنکھوں میں آ گئے آنسو جو تیرے دل میں ہے اس بات پر نہیں آئے وفائے عہد ہے یہ پا شکستگی تو نہیں ٹھہر گیا کہ مرے ہم سفر نہیں آئے نہ چھیڑ ان کو خدا کے لئے کہ اہل وفا بھٹک گئے ہیں تو پھر راہ پر نہیں آئے ابھی ابھی وہ گئے ہیں مگر یہ عالم ہے بہت دنوں سے وہ جیسے نظر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    لفظ ابھی ایجاد ہوں گے ہر ضرورت کے لیے

    لفظ ابھی ایجاد ہوں گے ہر ضرورت کے لیے شرح راحت کے لیے غم کی صراحت کے لیے اب مرا چپ چاپ رہنا امر مجبوری سہی میں نے کھولی ہی زباں کب تھی شکایت کے لیے میرے چشم و گوش و لب سے پوچھ لو سب کچھ یہیں مجھ کو میرے سامنے لاؤ شہادت کے لیے سخت کوشی سخت جانی کی طرف لائی مجھے مجھ کو یہ فرصت غنیمت ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا تلاش دوست کو اک عمر چاہئے اے دوست کہ ایک عمر ترا انتظار ہم نے کیا تیرے خیال میں دل شادماں رہا برسوں ترے حضور اسے سوگوار ہم نے کیا یہ تشنگی ہے کے ان سے قریب رہ کر بھی حفیظؔ یاد انہیں بار بار ہم نے کیا

    مزید پڑھیے

    پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے

    پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے عشق کی منزل اول پہ ٹھہرنے والو اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے تو جہاں جائے گی غارت گر ہستی بن کر ہم بھی اب ساتھ ترے گردش دوراں ہوں گے کس قدر سخت ہے یہ ترک و طلب کی منزل اب کبھی ان سے ملے بھی تو پشیماں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2