Hafeez Hoshiarpuri

حفیظ ہوشیارپوری

  • 1912 - 1973

اپنی غزل ’ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

Popular poet famous for his widely-sung ghazal "mohabbat karne wale kam na honge, teri mahfil mein lekin ham na honge".

حفیظ ہوشیارپوری کی غزل

    راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے

    راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے کیا تصرف ہے ترے حسن کا اللہ اللہ جلوے آنکھوں سے اتر کر دل و جاں تک پہنچے تری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا سرحد عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے حیرت عشق مری حسن کا آئینہ ہے دیکھنے والے کہاں سے ہیں کہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    گر اس کا سلسلہ بھی عمر جاوداں سے ملے

    گر اس کا سلسلہ بھی عمر جاوداں سے ملے کسی کو خاک سکوں مرگ ناگہاں سے ملے کوئی زمیں سے بھی پہنچائے آسماں کو پیام پیام اہل زمیں کو تو آسماں سے ملے خود اپنی گم شدگی سے جنہیں شکایت ہے تو ہی بتا انہیں تیرا نشاں کہاں سے ملے سراغ عمر گزشتہ ملے کہیں سے حفیظؔ سراغ عمر گزشتہ مگر کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا

    اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا اب کوئی جستجو نہیں شوق سلام کے سوا کوئی شریک غم نہیں اب تری یاد کے بغیر کوئی انیس دل نہیں اب ترے نام کے سوا تیری نگاہ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا اور بھی گردشیں ہیں کچھ گردش جام کے سوا خواہش آرزو سہی حاصل زندگی مگر حاصل آرزو ہے کیا سوز مدام کے ...

    مزید پڑھیے

    بے چارگئ حسرت دیدار دیکھنا

    بے چارگئ حسرت دیدار دیکھنا مشکل نہ دیکھنا ہے تو دشوار دیکھنا لمحات انتظار کی رفتار دیکھنا وہ بار بار سایۂ دیوار دیکھنا یوں دیکھنا کہ ٹوٹے نہ رشتہ نگاہ کا اک بار دیکھنے میں وہ سو بار دیکھنا یا صبح ہی سے شام کا پر کیف انتظار یا شام ہی سے صبح کے آثار دیکھنا کیا دل فریب ہے ترے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس طرح سے نظر سے گزر گیا کوئی

    کچھ اس طرح سے نظر سے گزر گیا کوئی کہ دل کو غم کا سزاوار کر گیا کوئی دل ستم زدہ کو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں خود اپنے حسن سے یوں بے خبر گیا کوئی وہ ایک جلوۂ صد رنگ اک ہجوم بہار نہ جانے کون تھا جانے کدھر گیا کوئی نظر کہ تشنۂ دیدار تھی رہی محروم نظر اٹھائی تو دل میں اتر گیا کوئی نگاہ ...

    مزید پڑھیے

    روشنی سی کبھی کبھی دل میں (ردیف .. ے)

    روشنی سی کبھی کبھی دل میں منزل بے نشاں سے آتی ہے لوٹ کر نور کی کرن جیسے سفر لا مکاں سے آتی ہے نوع انساں ہے گوش بر آواز کیا خبر کس جہاں سے آتی ہے اپنی فریاد بازگشت نہ ہو اک صدا آسماں سے آتی ہے تختۂ دار ہے کہ تختۂ گل بوئے خوں گلستاں سے آتی ہے دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ بات دل میں ...

    مزید پڑھیے

    من و تو کا حجاب اٹھنے نہ دے اے جان یکتائی

    من و تو کا حجاب اٹھنے نہ دے اے جان یکتائی کہیں ایسا نہ ہو بن جاؤں خود اپنا تمنائی وہی میں ہوں وہی ہے تیرے غم کی کار فرمائی کبھی تنہائی میں محفل کبھی محفل میں تنہائی خلش انگیز ہے وہ عالم جذب و گریز اب تک تری اچھی بری ہر بات یوں تو مجھ کو یاد آئی قصور ظرف سمجھوں یا شعور لذت ...

    مزید پڑھیے

    اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا

    اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا اب کوئی جستجو نہیں شوق سلام کے سوا کوئی شریک غم نہیں اب تیری یاد کے سوا کوئی انیس دل نہیں اب تیرے نام کے سوا کاہش آرزو سہی حاصل زندگی مگر حاصل آرزو ہے کیا سوز مدام کے سوا آہ کوئی نہ کر سکا چارۂ تلخئ فراق نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے سوا تیری ...

    مزید پڑھیے

    نرگس پہ تو الزام لگا بے بصری کا

    نرگس پہ تو الزام لگا بے بصری کا ارباب گلستاں پہ نہیں کم نظری کا توفیق رفاقت نہیں ان کو سر منزل رستے میں جنہیں پاس رہا ہم سفری کا اب خانقہ و مدرسہ و مے کدہ ہیں ایک اک سلسلہ ہے قافلۂ بے خبری کا ہر نقش ہے آئینۂ نیرنگ تماشا دنیا ہے کہ حاصل مری حیراں نظری کا اب فرش سے تا عرش زبوں ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی

    ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی ہر قدم پر اک نئی درپیش مشکل آ گئی یا خلا پر حکمراں یا خاک کے اندر نہاں زندگی ڈٹ کر عناصر کے مقابل آ گئی بڑھ رہا ہے دم بدم صبح حقیقت کا یقیں ہر نفس پر یہ گماں ہوتا ہے منزل آ گئی ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے جوڑتا جاتا ہوں میں ایک مشکل کم ہوئی اور ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2