Guhar Khairabadi

گہر خیرآبادی

گہر خیرآبادی کی غزل

    توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر

    توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر اس طرح مجھ پہ ستم اے ستم ایجاد نہ کر یہ نگہ لطف کی ہے اس سے نہ کر قتل مجھے چشم جاں بخش کو یوں خنجر جلاد نہ کر روئے روشن کی کبھی دید مجھے بھی دیدے رہ کے پوشیدہ مجھے مضطر و ناشاد نہ کر تیرے ہی دل کا اگر گوشہ قفس ہے صیاد پھر تو ہرگز مجھے اس قید سے آزاد ...

    مزید پڑھیے

    بے خبر کیسے ہو رہے ہو تم

    بے خبر کیسے ہو رہے ہو تم جاگتے ہو کہ سو رہے ہو تم کس لئے میرے ناخدا بن کر میری کشتی ڈبو رہے ہو تم میری قسمت کو میٹ کر خود ہی میری قسمت پہ رو رہے ہو تم مجھ سے میرا ہی تذکرہ کر کے دل میں کانٹے چبھو رہے ہو تم خون کر کے مری تمنا کا داغ دامن کے دھو رہے ہو تم میری ہر بات کی نفی کر ...

    مزید پڑھیے

    طوفان سمندر کے نہ دریا کے بھنور دیکھ

    طوفان سمندر کے نہ دریا کے بھنور دیکھ ساحل کی تمنا ہے تو موجوں کا سفر دیکھ خوشیوں کا خزینہ تہہ دامان الم ہے گزرے شب تاریک تو پھر نور سحر دیکھ اڑ جانا فلک تک کوئی مشکل نہیں لیکن سورج کے تمازت سے جھلس جائیں نہ پر دیکھ معراج ہے معراج ترے ذوق نظر کی ہر منظر دل کش یہی کہتا ہے ادھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2