میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا
میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا دیار غیر میں پھرتا ہوں در بدر تنہا مرے خلاف تمام آندھیاں زمانے کی میں اک چراغ صداقت کی راہ پر تنہا ہے ایک بھیڑ مگر کوئی بھی رفیق نہیں میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کس قدر تنہا نہ مٹے مٹ سکیں تنہائیاں مقدر کی کہ رہ کے باغ میں بھی ہے شجر شجر تنہا ترے ...