Guhar Khairabadi

گہر خیرآبادی

گہر خیرآبادی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا

    میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا دیار غیر میں پھرتا ہوں در بدر تنہا مرے خلاف تمام آندھیاں زمانے کی میں اک چراغ صداقت کی راہ پر تنہا ہے ایک بھیڑ مگر کوئی بھی رفیق نہیں میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کس قدر تنہا نہ مٹے مٹ سکیں تنہائیاں مقدر کی کہ رہ کے باغ میں بھی ہے شجر شجر تنہا ترے ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا

    ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا وہ زندگی کا صحیفہ بھی انتشار میں تھا جسے میں ڈھونڈ رہا تھا نوائے بلبل میں وہ نغمہ پیرہن گل کے تار تار میں تھا میں قتل ہو کے زمانے میں سرفراز رہا کہ میری جیت کا پہلو بھی میری ہار میں تھا کلیجے سارے درختوں کے سہمے جاتے تھے ہوا کا رخ تھا بھلا کس ...

    مزید پڑھیے

    میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا

    میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا ہر قطرہ جہاں ایک سمندر کی طرح تھا گھر سارے شکستہ تھے گذر گاہیں اندھیری کچھ شہر مرا میرے مقدر کی طرح تھا آج اس کا جہاں میں کوئی پرساں ہی نہیں ہے کل تک جو زمانے میں سکندر کی طرح تھا تھا اس کے مقدر میں لکھا ڈوبنا ڈوبا حالانکہ وہ دریا میں شناور ...

    مزید پڑھیے

    غم نہیں جو لٹ گئے ہم آ کے منزل کے قریب

    غم نہیں جو لٹ گئے ہم آ کے منزل کے قریب جانے کتنی کشتیاں ڈوبی ہیں ساحل کے قریب سرفروشی میری کوئی رنگ دکھلا جائے گی آ گیا ہوں یہ ارادہ لے کے قاتل کے قریب صرف دل کی بے حسی تھی فاصلہ کچھ بھی نہ تھا جب کیا احساس پایا آپ کو دل کے قریب تم نے جو رکھا یوں ہی تخریب کارانہ مزاج کون آنے دے گا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے

    چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے اندھیری رات بھی کس کس سے زندگی مانگے جلانے والے جلاتے ہیں نفرتوں کے چراغ فضائے وقت محبت کی روشنی مانگے وہ نا شناس حقیقت ہے اس زمانہ میں وفا کو بھیک سمجھ کر گلی گلی مانگے نشاط و رنج مقدر کی بات ہوتی ہے کسی سے غم نہ کسی سے کوئی خوشی مانگے ہر ایک ...

    مزید پڑھیے

تمام