Guhar Khairabadi

گہر خیرآبادی

گہر خیرآبادی کی غزل

    میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا

    میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا دیار غیر میں پھرتا ہوں در بدر تنہا مرے خلاف تمام آندھیاں زمانے کی میں اک چراغ صداقت کی راہ پر تنہا ہے ایک بھیڑ مگر کوئی بھی رفیق نہیں میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کس قدر تنہا نہ مٹے مٹ سکیں تنہائیاں مقدر کی کہ رہ کے باغ میں بھی ہے شجر شجر تنہا ترے ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا

    ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا وہ زندگی کا صحیفہ بھی انتشار میں تھا جسے میں ڈھونڈ رہا تھا نوائے بلبل میں وہ نغمہ پیرہن گل کے تار تار میں تھا میں قتل ہو کے زمانے میں سرفراز رہا کہ میری جیت کا پہلو بھی میری ہار میں تھا کلیجے سارے درختوں کے سہمے جاتے تھے ہوا کا رخ تھا بھلا کس ...

    مزید پڑھیے

    میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا

    میں غرق وہاں پیاس کے پیکر کی طرح تھا ہر قطرہ جہاں ایک سمندر کی طرح تھا گھر سارے شکستہ تھے گذر گاہیں اندھیری کچھ شہر مرا میرے مقدر کی طرح تھا آج اس کا جہاں میں کوئی پرساں ہی نہیں ہے کل تک جو زمانے میں سکندر کی طرح تھا تھا اس کے مقدر میں لکھا ڈوبنا ڈوبا حالانکہ وہ دریا میں شناور ...

    مزید پڑھیے

    غم نہیں جو لٹ گئے ہم آ کے منزل کے قریب

    غم نہیں جو لٹ گئے ہم آ کے منزل کے قریب جانے کتنی کشتیاں ڈوبی ہیں ساحل کے قریب سرفروشی میری کوئی رنگ دکھلا جائے گی آ گیا ہوں یہ ارادہ لے کے قاتل کے قریب صرف دل کی بے حسی تھی فاصلہ کچھ بھی نہ تھا جب کیا احساس پایا آپ کو دل کے قریب تم نے جو رکھا یوں ہی تخریب کارانہ مزاج کون آنے دے گا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے

    چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے اندھیری رات بھی کس کس سے زندگی مانگے جلانے والے جلاتے ہیں نفرتوں کے چراغ فضائے وقت محبت کی روشنی مانگے وہ نا شناس حقیقت ہے اس زمانہ میں وفا کو بھیک سمجھ کر گلی گلی مانگے نشاط و رنج مقدر کی بات ہوتی ہے کسی سے غم نہ کسی سے کوئی خوشی مانگے ہر ایک ...

    مزید پڑھیے

    تاریکیوں میں اپنی ضیا چھوڑ جاؤں گا

    تاریکیوں میں اپنی ضیا چھوڑ جاؤں گا گزروں گا میں تو نقش وفا چھوڑ جاؤں گا دنیا کے لوگ سنتے رہیں گے تمام عمر لفظوں میں اپنے دل کی صدا چھوڑ جاؤں گا اپنے لہو سے پھول کھلا کر حیات کے ہر سمت خوشبوؤں کی فضا چھوڑ جاؤں گا رکھیں گی یاد حسن کی رعنائیاں مجھے وہ گلستاں میں رنگ نیا چھوڑ جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    درد دل کے ساتھ کیا میرے مسیحا کر دیا

    درد دل کے ساتھ کیا میرے مسیحا کر دیا بے قراری بڑھ گئی ہے جب سے اچھا کر دیا کیا عجب تھی ان کے پاکیزہ تبسم کی کرن قلب کی تاریک بستی میں اجالا کر دیا جب نہ ان کے راز وحشت تک پہنچ پائی نظر ہوش والوں نے جنوں والوں کو رسوا کر دیا نفرتوں کی حد بنا کر اپنے میرے درمیاں وہ بھی تنہا رہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    وقار دے کے کبھی بے وقار مت کرنا

    وقار دے کے کبھی بے وقار مت کرنا ہمیں خدا کے لئے شرمسار مت کرنا نکلنا جب کبھی لے کر چراغ بستی میں اندھیرے گھر بھی ملیں گے شمار مت کرنا اسی کا آج بھی ہم انتظار کرتے ہیں جو کہہ گیا تھا مرا انتظار مت کرنا یہ مانا آج زمانہ ہے بے وفائی کا مگر تم ایسا چلن اختیار مت کرنا سفر کے مارے ...

    مزید پڑھیے

    دل کے دامن میں جو سرمایۂ افکار نہ تھا

    دل کے دامن میں جو سرمایۂ افکار نہ تھا زندگی تھی مگر اس کا کوئی معیار نہ تھا جانے کیوں بات مری ان کو گراں بار ہوئی لفظ ایسا تو کوئی شامل گفتار نہ تھا کون سنتا مری کس کو میں صدائیں دیتا ایسی غفلت تھی کہ احساس بھی بیدار نہ تھا ہر طرف دھوپ تھی پھیلی ہوئی عریانی کی سر چھپانے کو کہیں ...

    مزید پڑھیے

    جس طرف بھی دیکھیے سایہ نہیں

    جس طرف بھی دیکھیے سایہ نہیں پھر بھی گلشن ہے کوئی صحرا نہیں لوگ بیٹھے ہیں اسی کی چھاؤں میں سائے سے جس پیڑ کا رشتہ نہیں کام اگر آئے نگاہ حق شناس پھر کسی پہلو کوئی دھوکا نہیں حق پسند میرا دستور عمل یعنی بک جانا مرا شیوہ نہیں دوستو رکھو حقیقت پر نظر خواب آنکھوں میں کبھی پلتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2