لب جاں بخش پہ دم اپنا فنا ہوتا ہے
لب جاں بخش پہ دم اپنا فنا ہوتا ہے آج عیسیٰ سے یہ بیمار جدا ہوتا ہے زلف کو دست حنائی سے جو چھوتا ہے وہ شوخ تو گرفتار وہیں درد حنا ہوتا ہے تھا گرفتار شب و روز نگہبانی میں ہم جو اب چھوٹیں ہیں صیاد رہا ہوتا ہے پھر بہار آتی ہے اے خار بیاباں خوش ہو آج کل پھر گزر آبلہ پا ہوتا ہے مر گئے ...