Gorbachan Singh Dayal Maghmum

گور بچن سنگھ دیال مغموم

  • 1934

گور بچن سنگھ دیال مغموم کی غزل

    گلا کیا کروں اے فلک بتا مرے حق میں جب یہ جہاں نہیں

    گلا کیا کروں اے فلک بتا مرے حق میں جب یہ جہاں نہیں کہوں کیسے حال دل ان سے میں مری ہلتی تک یہ زباں نہیں یہ بھنور ہیں بہر حیات کے میں ہوں خستہ حال و شکستہ دل مری ڈگمگاتی ہے ناؤ اب کہیں ملتا مجھ کو کراں نہیں تجھے ڈھونڈوں بھی تو کہاں کہ جب ہوں میں خود ہی ظلمت یاس میں مجھے بزم ہستی میں ...

    مزید پڑھیے

    بہت واقف ہیں لب آہ و فغاں سے

    بہت واقف ہیں لب آہ و فغاں سے تبسم ہے کہاں لاؤں کہاں سے تصور بھول جاتا ہے خدا کو یہ ٹکرایا ہے جب آہ و فغاں سے یقیں ہونے کو ہے مایوسیوں پر توقع اٹھ رہی ہے آسماں سے مقفل ہو زباں جس بے نوا کی وہ کیوں کر کیا کہے اپنی زباں سے کہے کچھ بھی مگر پر سوز ہوگا ہمیں امید ہے اپنی زباں سے الٰہی ...

    مزید پڑھیے

    جب ملی ان سے نظر مٹنے کا ساماں ہو گیا

    جب ملی ان سے نظر مٹنے کا ساماں ہو گیا اے قضا خوش ہو ترا اب کام آساں ہو گیا دل ربا معلوم ہوتی ہیں مجھے تنہائیاں نقش ہر شے کا مجھے تصویر جاناں ہو گیا میری خواہش تھی کہ لوٹوں لذت دنیا مگر وسعت حرص و ہوا سے تنگ داماں ہو گیا بڑھ رہی ہیں قیمتیں ہر چیز کی بازار میں ایک ایسا غم ہے جو اب ...

    مزید پڑھیے

    مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں ہے

    مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں ہے جلے دل کا دھواں کچھ بھی نہیں ہے نہ تڑپایا کسی ظالم کو اس نے مری طرز بیاں کچھ بھی نہیں ہے جہاں ہو بجلیوں کا خوف پیہم سکون آشیاں کچھ بھی نہیں ہے ہر اک شے بن گئی شیشہ کی مانند اب اپنے درمیاں کچھ بھی نہیں ہے خدا گو ذرہ ذرہ سے عیاں ہے مگر ذرہ یہاں کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    بات کچھ بھی نہ تھی فسانہ ہوا

    بات کچھ بھی نہ تھی فسانہ ہوا میری رسوائی کا بہانہ ہوا تھی یہ خواہش کہیں گے سب کچھ ہم ان کے آگے تو لب بھی وا نہ ہوا روز آتی ہے اک نئی آفت دل مرا جب سے عاشقانہ ہوا کیوں تڑپتا ہے پھر دل مضطر کس بلا کا یہ پھر نشانہ ہوا تو نے چھوڑا ہے ساتھ جب سے ندیم ہائے دشمن مرا زمانہ ہوا مر ہی ...

    مزید پڑھیے

    تڑپ تو آج بھی کچھ کم نہیں ہے

    تڑپ تو آج بھی کچھ کم نہیں ہے مگر یہ چشم اب پر نم نہیں ہے ہوئے جب فرط غم سے خشک آنسو وہ یہ سمجھے کہ مجھ کو غم نہیں ہے دھواں سا اک اٹھا کرتا ہے دل میں تری یاد آہ اب بھی کم نہیں ہے وہ راہیں بھی کوئی راہیں ہیں یارو کہ جن میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے رواں ہوں یوں تو اب بھی سوئے منزل قدم ...

    مزید پڑھیے

    پھر مجھے جینے کی دعا دی ہے

    پھر مجھے جینے کی دعا دی ہے یعنی پھر اک حسیں سزا دی ہے ظلم سہہ کر بھی ہم نے ظالم کے ہاتھ چومے ہیں اور دعا دی ہے کیوں گلہ ہو کہ ہم کو قدرت نے یہ کسی جرم کی سزا دی ہے شکریہ تو نے ایک ٹھوکر سے روح خوابیدہ اک جگا دی ہے حسن کو کیا خبر کہ خود اس نے شعلۂ عشق کو ہوا دی ہے موسم گل نے آ کے ...

    مزید پڑھیے