تڑپ تو آج بھی کچھ کم نہیں ہے

تڑپ تو آج بھی کچھ کم نہیں ہے
مگر یہ چشم اب پر نم نہیں ہے


ہوئے جب فرط غم سے خشک آنسو
وہ یہ سمجھے کہ مجھ کو غم نہیں ہے


دھواں سا اک اٹھا کرتا ہے دل میں
تری یاد آہ اب بھی کم نہیں ہے


وہ راہیں بھی کوئی راہیں ہیں یارو
کہ جن میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے


رواں ہوں یوں تو اب بھی سوئے منزل
قدم اٹھتے ہیں لیکن دم نہیں ہے


بھلا وہ زندگی کیا زندگی ہے
خوشی کے ساتھ جس میں غم نہیں ہے


ہوا خاموش یہ مغمومؔ کیسے
ہے نا ممکن کہ اس کو غم نہیں ہے