Ghulam Abbas

غلام عباس

رجحان ساز افسانہ نگار ، اپنے افسانے’ آنندی‘ کے لیے مشہور

غلام عباس کی رباعی

    سرخ جلوس

    یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں نے ’’نوبہار‘‘ کے چیف ایڈیٹر سے ایک معمولی سا اختلاف ہو جانے پر جوانی کے جوش میں استعفا دے دیا تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ فکر معاش نے مجھے ’’ستارہ مشرق‘‘ میں ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا۔ ’’ستارہ مشرق‘‘ کسی رسالہ یا اخبار کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہوٹل ...

    مزید پڑھیے

    دو تماشے

    مرزا برجیس قدر کو میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ ہرچند ہماری طبیعتوں اور ہماری سماجی حیثیتوں میں بڑا فرق تھا، پھر بھی ہم دونوں دوست تھے۔ مرزا کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کسی زمانے میں بہت معزز اور متمول سمجھا جاتا تھا، مگر اب اس کی حالت اس پرانے تناور درخت کی سی ہوگئی تھی جو ...

    مزید پڑھیے

    بحران

    جب سے سرکار نے لوگوں کو مکانات تعمیر کرانے کے لیے زمینیں الاٹ کرنی شروع کی ہیں، اس شہر کی کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ آس پاس کے وہ علاقے جو میلوں تک ویران پڑے تھے ، اب ان میں جگہ جگہ کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ ان گنت راج مزدور، مستری اور ٹھیکہ دار ایک عجیب بے چینی اور عجلت کی کیفیت کے ساتھ کام ...

    مزید پڑھیے

    مکرجی بابو کی ڈائری

    کئی روز کی مسلسل مصروفیتوں کے بعد ورما ایشیاٹک کمپنی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرمکرجی بابو کوفراغت کی ایک شام نصیب ہوئی تو انہوں نےسوچاکہ اسے یونہی نہیں گنوانا چاہیے۔ لندن کی ایک تنگ اور پرپیچ گلی میں جو پکاڈلی سرکس سے زیادہ دور نہ تھی، ایک پرانے مکان کی چوتھی منزل پر ان کا ایک چھوٹا ...

    مزید پڑھیے

    کن رس

    بعض لوگوں کو گانے بجانے سے قدرتی لگاؤ ہوتا ہے۔ خود چاہے بے سرے ہی کیوں نہ ہوں مگر سریلی آواز پر جان دیتے ہیں۔ راگ ان پر جادو کا سا اثر کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ گانے بجانے کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں جیسے کسی کو کوئی نشہ لگ جائے۔ صاحب ثروت ہوئے تو عمر بھر گویوں کی پرورش کرتے رہے، نہیں تو ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ و سفید

    جی۔ اے۔ وی۔ مڈل اسکول کی استانی میمونہ بیگم آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ سوچ رہی تھی کہ پچھلے کئی برس میں اپنی قلیل تنخواہ میں سے دو دو تین تین روپے بچاکر جو سو روپیہ جمع کرلیا ہے اس کا کون سا زیور بناؤں کہ اچانک اسے اپنی بائیں پیشانی کے ...

    مزید پڑھیے

    تنکے کا سہارا

    ہمارے محلے میں ایک میر صاحب رہا کرتے تھے۔ نام سے تو ان کے شاید دو ایک آدمی ہی واقف تھے مگر رفتہ رفتہ سب کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ وہ چنگی خانے میں ملازم ہیں۔ خدا معلوم وہاں کیا کام کرتے تھے مگر شام کو جب وہ لوٹتے تو کبھی دو چار گنے، کبھی گڑ کی بھیلی، کبھی پان، کبھی کھجوریں رومال ...

    مزید پڑھیے

    جوار بھاٹا

    ایک شجرہ نسب چھجو، باپ کا نام باوجود تحقیق بسیار معلوم نہ ہو سکا۔ کسی گاؤں میں کبابی کی دکان کرتے تھے۔ شیخ مسیتا، چھجو کے بیٹے۔ شہر میں پان سگرٹ کی دکان تھی پھر عطاری کرنےلگے۔ حکیم عمر دراز، شیخ مسیتا کے بیٹے۔ ان پڑھ تھے مگر ساری عمر حکمت کرتے رہے۔ بلا کے زیرک تھے۔ اگر تعلیم سے ...

    مزید پڑھیے

    ناک کاٹنے والے

    تین شخص چغے پہنے سر پر آڑی ترچھی پگڑیاں باندھے، ننھی جان کے کمرے میں داخل ہوئے اور چاندنی پر گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھ گئے۔ ’’مزاج تو اچھے ہیں سرکار!‘‘ رنگ علی نے کہا۔ ان تینوں میں سے کسی نے اس کی مزاج پرسی کی رسید نہ دی۔ گلابی جاڑوں کے دن تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی ...

    مزید پڑھیے

    سایہ

    دن بھر جیسے جیسے سائے گھٹتے بڑھتے اور زاویے بدلتے رہتے، سبحان کی دکان بھی جگہیں بدلتی رہتی۔ صبح کو سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ اپنا ٹھیلہ وکیل صاحب کے مکان کے سامنے سڑک کے اس کنارے لا کھڑا کرتا۔ اس طرف کوئی عمارت نہ تھی۔ زمین بھوبھل کی طرح تھی اور تھوڑی سی ڈھلوان کے بعد ایک میدان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4