Ghaus Khah makhah Hyderabadi

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی کی غزل

    ہمیں کوئی مطلب نہیں لا مکاں سے

    ہمیں کوئی مطلب نہیں لا مکاں سے غرض ہے ہمیں صرف اپنے مکاں سے غموں کا یہ عالم ہے جانے کہاں سے چلے آ رہے ہیں یہاں سے وہاں سے نکالے گئے ہیں جو ہم آشیاں سے شکایت نہیں ہے ہمیں باغباں سے کہیں برق پر بجلیاں نہ گری ہوں یہ شعلہ سا اٹھتا ہے کیوں آسماں سے جلا ہی نہیں تو دھواں کیا اٹھے ...

    مزید پڑھیے

    پہلے پہلے شوہر کو ہر موسم بھیگا لگتا ہے

    پہلے پہلے شوہر کو ہر موسم بھیگا لگتا ہے یوں سمجھو بلی کے بھاگوں ٹوٹا چھیکا لگتا ہے پھیکا لنچ اور ڈنر بھی عمدہ اور تیکھا لگتا ہے نقلی تیل میں تلا سموسہ اصلی گھی کا لگتا ہے شادی ایک چیونگم ہے جو پہلے میٹھا لگتا ہے پھر منہ میں جتنا گھولو گے اتنا پھیکا لگتا ہے عقد ہوا جب میرا اس دم ...

    مزید پڑھیے

    سفارش کی ضرورت ہی نہ ہوتی

    سفارش کی ضرورت ہی نہ ہوتی نوازش کی ضرورت ہی نہ ہوتی اگر آتا ہمیں حق چھین لینا گزارش کی ضرورت ہی نہ ہوتی اگر سوکھے کنویں شبنم سے بھرتے تو بارش کی ضرورت ہی نہ ہوتی نہیں آتے اگر دنیا میں ہم تو رہائش کی ضرورت ہی نہ ہوتی حسینوں کا جو ہوتا حسن سادہ نمائش کی ضرورت ہی نہ ہوتی اگر ...

    مزید پڑھیے