زیست میں تاریکیاں بڑھتی گئیں
زیست میں تاریکیاں بڑھتی گئیں لمحہ لمحہ سسکیاں بڑھتی گئیں بے زبان جب ہو گئی یہ زندگی ذہن میں سرگوشیاں بڑھتی گئیں خواہشوں کے پھول مرجھانے لگے پھر مری یہ ہچکیاں بڑھتی گئیں زخم کھا کر مسکراتے ہی رہے دل کی یہ خاموشیاں بڑھتی گئیں سوچتے ہی سوچتے گزرا سفر خواب کی سرمستیاں بڑھتی ...