وحشتوں کا آج پھر چرچا رہا
وحشتوں کا آج پھر چرچا رہا
آج پھر یہ دل مرا ٹھہرا رہا
وادیوں میں زندگی مرتی رہی
درد آنکھوں سے مرے بہتا رہا
پتھروں کے وار وہ سہتے گئے
آئنوں کے ساتھ یہ قصہ رہا
مسئلے شمع بجھا کر تھک گئے
شوق کا سورج مگر جلتا رہا
زندگی اپنا سفر کرتی گئی
روبرو آنکھوں کے اک چہرہ رہا
منتشر تھے دھڑکنوں کے ساز بھی
دل مسلسل رات بھر تنہا رہا
زخم دے کر تھک گئی یہ زندگی
خواب آنکھوں میں مگر ٹھہرا رہا