Gauhar Hoshiyarpuri

گوہر ہوشیارپوری

  • 1930 - 2000

گوہر ہوشیارپوری کی غزل

    اجلے میلے پیش ہوئے

    اجلے میلے پیش ہوئے جیسے ہم تھے پیش ہوئے آیا کون کٹہروں میں ساتھ کٹہرے پیش ہوئے اپنے سارے جھوٹ کھلے کس کے آگے پیش ہوئے اندازے جب ہار گئے پھر مفروضے پیش ہوئے شاہ کو شاید مات ہوئی شاہ کے مہرے پیش ہوئے عدل کا چشمہ سوکھ گیا عدل کے پیاسے پیش ہوئے ہم بھی شاید صاف نہ تھے ڈرتے ڈرتے ...

    مزید پڑھیے

    جاتی رت سے پیار کرو گے

    جاتی رت سے پیار کرو گے کر لو بات ادھار کرو گے تب مل کر احسان کیا تھا اب مل کر ایثار کرو گے جتنے خواب اتنی تعبیریں کتنے داغ شمار کرو گے اے انکار کے خوگر لوگو اور بھی کوئی وار کرو گے اس کے نام کو ناؤ بنا کر پیاسوں کو سرشار کرو گے فرض کرو ہم مر نہ سکے تو جینے سے انکار کرو گے فرض ...

    مزید پڑھیے

    دل تمام آئینے تیرہ کون روشن کون

    دل تمام آئینے تیرہ کون روشن کون اب یہ آنکھ ہی جانے دوستوں میں دشمن کون یا جگر میں خوں کم تھا یا ابھی جنوں کم تھا دشت کے عوض کرتا ورنہ قصد گلشن کون اک نشاط آرائی اک سکون تنہائی ہجر یا وصال اچھا حل کرے یہ الجھن کون سلسلے محبت کے نام سے نہیں چلتے اپنی ذات جو تج دے شیخ کیا برہمن ...

    مزید پڑھیے

    کیسے ڈوبا ڈوب گیا

    کیسے ڈوبا ڈوب گیا ڈوبنے والا ڈوب گیا کیسی نیک کمائی تھی! پیسہ پیسہ ڈوب گیا ناؤ نہ ڈوبی دریا میں ناؤ میں دریا ڈوب گیا لوگ کنارے آن لگے اور کنارہ ڈوب گیا بارش اس نے بھیجی تھی شہر ہمارا ڈوب گیا ساری رات بتا ڈالی تارہ تارہ ڈوب گیا گوہرؔ پورا خواب سنا پانی میں کیا ڈوب گیا

    مزید پڑھیے

    اپنا دکھڑا کہتے ہیں

    اپنا دکھڑا کہتے ہیں اور تجھے کیا کہتے ہیں کچی کونپل ہوتا ہے پیار کا رشتہ کہتے ہیں دنیا کس کی اپنی ہے اہل دنیا کہتے ہیں اے دل یہ در ماندگیاں تجھ کو دریا کہتے ہیں اپنا سا بس لگتا ہے جس کو اپنا کہتے ہیں لوٹنے والے! دیر نہ کر لوٹ کے لے جا کہتے ہیں گوہرؔ لوگ تو بات نہیں بات کا سہرا ...

    مزید پڑھیے

    دریا میں یہ ناؤ کس طرف ہے

    دریا میں یہ ناؤ کس طرف ہے پانی کا بہاؤ کس طرف ہے یہ راہ کدھر کو مڑ رہی ہے لوگوں کا لگاؤ کس طرف ہے منزل کہاں تاکتے ہیں راہی تکتے ہیں پڑاؤ کس طرف ہے تاثیر کہاں گئی سخن سے جذبوں کا الاؤ کس طرف ہے آواز کہیں بلا رہی ہے یاروں کا رجھاؤ کس طرف ہے تصویر دکھا رہی ہے کیا کچھ رنگوں کا رچاؤ ...

    مزید پڑھیے

    شاعری بات نہیں گرم سخن ہونے کی

    شاعری بات نہیں گرم سخن ہونے کی شرط ہی اور ہے شائستۂ فن ہونے کی میں کہ ہر دم مجھے بالیدگیٔ روح کی فکر روح کو فکر ہے وارستۂ تن ہونے کی رم بہ رم سلسلۂ موج غزالان خیال دشت غربت کو بشارت ہو وطن ہونے کی پرتو رنگ سے گلگوں ہوا معمورۂ چشم دھوم ہے کوئے تماشا کے چمن ہونے کی حق پرستی کو ...

    مزید پڑھیے

    دکھی دلوں میں، دکھی ساتھیوں میں رہتے تھے

    دکھی دلوں میں، دکھی ساتھیوں میں رہتے تھے یہ اور بات کہ ہم مسکرا بھی لیتے تھے وہ ایک شخص برائی پہ تل گیا تو چلو سوال یہ ہے کہ ہم بھی کہاں فرشتے تھے اور اب نہ آنکھ نہ آنسو نہ دھڑکنیں دل میں تمہی کہو کہ یہ دریا کبھی اترتے تھے جدائیوں کی گھڑی نقش نقش بولتی ہے وہ برف بار ہوا تھی، وہ ...

    مزید پڑھیے

    بندوں کا مزاج ہم نے دیکھا

    بندوں کا مزاج ہم نے دیکھا کیا کچھ نہیں آج ہم نے دیکھا ہلتے ہوئے تخت کو سنبھالو گرتا ہوا تاج ہم نے دیکھا جیتے تو خوشی سے مر نہ جاتے کس شخص کا راج ہم نے دیکھا کیا کیا نہ ترس ترس گئے ہم کیا کیا نہ سماج ہم نے دیکھا روئے ہیں تو لوگ رو پڑے ہیں اب کے تو رواج ہم نے دیکھا گوہرؔ کو سلام ...

    مزید پڑھیے

    میں خود ہی خوگر خلش جستجو نہ تھا

    میں خود ہی خوگر خلش جستجو نہ تھا دشوار ورنہ مرحلۂ آرزو نہ تھا ناحق خراب منت درماں ہوا نہ درد ممنون زخم ہوں کہ مقام رفو نہ تھا یا آشنائے رمز طلب ہی نہ تھی زباں لب وا ہوئے تو حوصلۂ گفتگو نہ تھا نا‌ پرسش وفا کی یہ نوبت کبھی نہ تھی دل یوں سلوک اہل کرم سے لہو نہ تھا ہاں کب بنام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2