میں خود ہی خوگر خلش جستجو نہ تھا
میں خود ہی خوگر خلش جستجو نہ تھا
دشوار ورنہ مرحلۂ آرزو نہ تھا
ناحق خراب منت درماں ہوا نہ درد
ممنون زخم ہوں کہ مقام رفو نہ تھا
یا آشنائے رمز طلب ہی نہ تھی زباں
لب وا ہوئے تو حوصلۂ گفتگو نہ تھا
نا پرسش وفا کی یہ نوبت کبھی نہ تھی
دل یوں سلوک اہل کرم سے لہو نہ تھا
ہاں کب بنام عشق ہوس سرخ رو نہ تھی
ہاں کب نیاز شوق سبک کو بہ کو نہ تھا
خوش فہمیٔ خیال کی اب ضد کا کیا علاج
ورنہ جو شام پاس سے گزرا تھا تو نہ تھا
گوہرؔ غزل سے دھل تو گیا کچھ غبار غم
ہر چند یہ ہنر سبب آبرو نہ تھا