Fazil Ansari

فاضل انصاری

فاضل انصاری کی غزل

    بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں

    بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں یہ بات نقص نظر کے سوا کچھ اور نہیں حیات کی شب تاریک ختم ہوتی ہے قضا طلوع سحر کے سوا کچھ اور نہیں جو دیکھیے تو کف گل فروش بھی ہے حیات غلط کہ دامن تر کے سوا کچھ اور نہیں گزر کے حد سے ہر اک شے برعکس ہوتی ہے کمال عیب ہنر کے سوا کچھ اور نہیں یہ رنگ ...

    مزید پڑھیے

    زمزمۂ آہ و فغاں دور تک

    زمزمۂ آہ و فغاں دور تک گونجتی ہے وادئ جاں دور تک ہائے رے ویرانیٔ راہ حیات کوئی صدا ہے نہ نشاں دور تک مل نہ سکا امن و سکوں کا پتہ ڈھونڈ چکی عمر رواں دور تک شمع طرب جلوہ فگن آس پاس مشعل غم نور فشاں دور تک سمٹے ہوئے امن کے پیغامبر پھیلے ہوئے قاتل جاں دور تک شہر میں دیہات میں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ادیب تھا نہ میں کوئی بڑا صحافی تھا

    ادیب تھا نہ میں کوئی بڑا صحافی تھا زمانہ پھر بھی مرے فن کا اعترافی تھا مجھے بھی زہر دیا کیوں نہ حق بیانی پر کہ یہ گناہ تو نا قابل معافی تھا کسی سے ایک بھی فطرت کا راز کھل نہ سکا اگرچہ دور زمانے کا انکشافی تھا مصیبتوں نے تو ناحق اٹھائیں تکلیفیں مجھے مٹانے کو میرا شباب کافی ...

    مزید پڑھیے

    یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے

    یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے خلوص ہر رہبر‌ زمانہ فریب رہزن سے کم نہیں ہے ہوا تو ہے بے نقاب کوئی نظر ہے محروم دید پھر بھی نقاب سے ہے سوا تجلی جمال چلمن سے کم نہیں ہے لگا کے خون جگر کا ٹیکا ہے سامنے غم کے سر بہ سجدہ صنم پرستی میں تو بھی اے دل کسی برہمن سے کم ...

    مزید پڑھیے

    اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم

    اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم آگے بڑھیں گے اور مقام قمر سے ہم عزم بلند حوصلۂ مستقل لیے گزرے ہر ایک مرحلۂ سخت تر سے ہم دیکھا تو ہے زمیں سے تجھے گنبد فلک دیکھیں گے اب زمیں کو ترے بام و در سے ہم جب سے ہوئی ہے آنکھ شب غم سے آشنا نا آشنا ہیں لذت خواب سحر سے ہم دل اضطراب و درد سے ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی دل ٹوٹنے پر اس طرح دل سے فغاں پیدا

    ہوئی دل ٹوٹنے پر اس طرح دل سے فغاں پیدا کہ جیسے شمع کے بجھنے سے ہوتا ہے دھواں پیدا رہا ثابت قدم یوں ہی اگر عزم سفر اپنا کرے گی خود رہ‌ دشوار ہی آسانیاں پیدا ہر اک تعمیر خود اپنی تباہی ساتھ لاتی ہے نہ گرتی برق گر ہوتی نہ شاخ آشیاں پیدا مری خواہش کہ اک سجدہ مٹا دے نام پیشانی تری ...

    مزید پڑھیے

    وہ برق کا ہو کہ موجوں کے پیچ و تاب کا رنگ

    وہ برق کا ہو کہ موجوں کے پیچ و تاب کا رنگ جدا ہے سب سے مرے دل کے اضطراب کا رنگ شگفتگی مجھے زخم جگر کی یاد آئی چمن میں دیکھ کے کھلتے ہوئے گلاب کا رنگ کیا نہ ترک اگر ترک عاشقی کا خیال خراب اور بھی ہوگا دل خراب کا رنگ لگا رہے ہیں وہ نشتر سے زخم پر مرہم نگاہ لطف و کرم میں بھی ہے عتاب ...

    مزید پڑھیے

    اشک آیا آنکھ میں جلتا ہوا

    اشک آیا آنکھ میں جلتا ہوا آج سوز غم کا اندازہ ہوا زندگی گزری امید و یاس میں دل کبھی گلشن کبھی صحرا ہوا ذکر زلف یار رہنے دو ابھی مسئلہ ہے زیست کا الجھا ہوا بن گیا دامن میں وہ آنسو گہر جو نہ میری آنکھ کا تارا ہوا بارہا رک رک گئی نبض جہاں حسن کا جادو ہے کیا چلتا ہوا گردشوں سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    چمک ستاروں کی نظروں پہ بار گزری ہے

    چمک ستاروں کی نظروں پہ بار گزری ہے نہ پوچھ کیسے شب انتظار گزری ہے جو آنسوؤں کی ندی خشک تھی کئی دن سے وہ ساتھ اپنے لیے آبشار گزری ہے میں اک دھواں تھا کہ اٹھتا گیا ہر اک دل سے جدھر سے وہ نگۂ برق بار گزری ہے وہاں سے ساتھ مرا ساتھیوں نے چھوڑ دیا جہاں سے راہ گزر خار زار گزری ہے خدا ...

    مزید پڑھیے

    مرے زخم جگر کو زخم دامن دار ہونا تھا

    مرے زخم جگر کو زخم دامن دار ہونا تھا ذرا واضح تمہارے لطف کا اظہار ہونا تھا دل پر داغ کی تاریکیوں پر سخت حیرت ہے یہ وہ مطلع ہے جس کو مطلع انوار ہونا تھا تمہیں لینا تھا پہلے جائزہ اپنی نگاہوں کا پھر اس کے بعد موسیٰ طالب دیدار ہونا تھا پریشاں ہیں مثال گرد گمنامی کے صحرا میں بہت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2