Fazil Ansari

فاضل انصاری

فاضل انصاری کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں

    بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں یہ بات نقص نظر کے سوا کچھ اور نہیں حیات کی شب تاریک ختم ہوتی ہے قضا طلوع سحر کے سوا کچھ اور نہیں جو دیکھیے تو کف گل فروش بھی ہے حیات غلط کہ دامن تر کے سوا کچھ اور نہیں گزر کے حد سے ہر اک شے برعکس ہوتی ہے کمال عیب ہنر کے سوا کچھ اور نہیں یہ رنگ ...

    مزید پڑھیے

    زمزمۂ آہ و فغاں دور تک

    زمزمۂ آہ و فغاں دور تک گونجتی ہے وادئ جاں دور تک ہائے رے ویرانیٔ راہ حیات کوئی صدا ہے نہ نشاں دور تک مل نہ سکا امن و سکوں کا پتہ ڈھونڈ چکی عمر رواں دور تک شمع طرب جلوہ فگن آس پاس مشعل غم نور فشاں دور تک سمٹے ہوئے امن کے پیغامبر پھیلے ہوئے قاتل جاں دور تک شہر میں دیہات میں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ادیب تھا نہ میں کوئی بڑا صحافی تھا

    ادیب تھا نہ میں کوئی بڑا صحافی تھا زمانہ پھر بھی مرے فن کا اعترافی تھا مجھے بھی زہر دیا کیوں نہ حق بیانی پر کہ یہ گناہ تو نا قابل معافی تھا کسی سے ایک بھی فطرت کا راز کھل نہ سکا اگرچہ دور زمانے کا انکشافی تھا مصیبتوں نے تو ناحق اٹھائیں تکلیفیں مجھے مٹانے کو میرا شباب کافی ...

    مزید پڑھیے

    یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے

    یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے خلوص ہر رہبر‌ زمانہ فریب رہزن سے کم نہیں ہے ہوا تو ہے بے نقاب کوئی نظر ہے محروم دید پھر بھی نقاب سے ہے سوا تجلی جمال چلمن سے کم نہیں ہے لگا کے خون جگر کا ٹیکا ہے سامنے غم کے سر بہ سجدہ صنم پرستی میں تو بھی اے دل کسی برہمن سے کم ...

    مزید پڑھیے

    اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم

    اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم آگے بڑھیں گے اور مقام قمر سے ہم عزم بلند حوصلۂ مستقل لیے گزرے ہر ایک مرحلۂ سخت تر سے ہم دیکھا تو ہے زمیں سے تجھے گنبد فلک دیکھیں گے اب زمیں کو ترے بام و در سے ہم جب سے ہوئی ہے آنکھ شب غم سے آشنا نا آشنا ہیں لذت خواب سحر سے ہم دل اضطراب و درد سے ...

    مزید پڑھیے

تمام